کسی شخص کے پاس دم شکر ادا کرنے کی رقم نہ ہو تو کیا کرے

کسی شخص کے پاس دم شکر ادا کرنے کی رقم نہ ہو تو کیا کرے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص حج قران یا تمتع کے لیے مکہ جائے اور اس کے پاس حج قران یا تمتع کا دم شکر ادا نہ کرنے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے استطاعت نہ ہو،تو اس کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی شخص حج قران یا حج تمتع کا دم شکر ادا کرنے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے استطاعت نہ رکھتا ہو،تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دس روزے رکھے۔
روزے رکھنے کی ترتیب یہ ہے کہ تین روزے دس ذی الحجہ سے پہلے رکھ لے، او رباقی سات روزے ایام تشریق گزرنے کے بعد مکہ مکرمہ میں یا اپنے ملک میں جہاں چاہے رکھ لے، اور اگر دس ذی الحجہ سے پہلے تین روزے نہیں رکھ سکا اور نو ذی الحجہ گزر گئی،تو ہر حال میں دم دینا ضروری ہے۔
اور اگر اس صورت میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے دم دینے کی قدرت نہیں، تو رمی کے بعد حلق یا قصر کر کے حلال ہوجائے اور احرام کی پابندی سے نکل جائے، اب اس پر دو دم دینا واجب ہوں گے:٭دم شکر٭ذبح سے پہلے حلق یا قصر کر کے حلال ہونے کا دم۔

لما في التنویر مع الدر:
’’(وإن عجز صام ثلاثة أيام) ولو متفرقة (آخرها يوم عرفة) ندبا رجاء القدرة على الأصل، فبعده لا يجزيه؛ فقول المنح كالبحر بيان للأفضل فيه كلام (وسبعة بعد) تمام أيام (حجه) فرضا أو واجبا، وهو بمعنى أيام التشريق (أين شاء) لكن أيام التشريق لا تجزيه{وسبعة إذا رجعتم}أي: فرغتم من أفعال الحج، فعم من وطنه منى أو اتخذها موطنا (فإن فاتت الثلاثة تعين الدم) فلو لم يقدر تحلل وعليه دمان، ولو قدر عليه في أيام النحر قبل الحلق بطل صومه‘‘.(کتاب الحج،باب القران:۳/ ۶۳۶-۶۳۸،رشیدیۃ).
وفیہ أیضاً:
’’(فإن عجز) عن دم (صار كالقران، وجاز صوم الثلاثة بعد إحرامها) أي العمرة لكن في أشهر الحج (لا قبله) أي الإحرام (وتأخيره أفضل) رجاء وجود الهدي كما مر‘‘.
وقال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
’’(قوله:وتأخيرها) أي إلى السابع والثامن والتاسع كما مر في القران‘‘.(کتاب الحج،باب التمتع:۳/ ۶۴۴-۶۴۵،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:179/88

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی