کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں؟اگر کوئی بغیر اجازت کے کسی کی طرف سے حج کرلے تو شریعت میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
کسی کی طرف سے حج بدل کرنے کے لیے اس کی اجازت ضروری ہے، اگر وہ وفات پاگیا ہو تو اس کی طرف سے حج کرنے کی وصیت ہو، لہٰذا اگر کسی نے دوسرے کے لیے حج بدل، اس کی اجازت کے بغیر کیا ہو، تو وہ حج اسی کا شمار ہوگا، وہ اس کا ثواب جسے چاہے بخش دے، البتہ اگر وارث نے موروث کی اجازت کے بغیر اس کے لیے حج کیا، اس سے اس مورث کا حج ادا ہونے کی امیدہے۔لما في الشامیۃ:
’’(والمرکبۃ منھما) کحج الفرض تقبل النیابۃ عند الحجز فقط لکن بشرط دوام الحجز إلی الموت......(وبشرط الأمر بہ) أي: بالحج عنہ (فلایجوز حج الغیر بغیر إذنہ إلا إذا حج) أو أحج (الوارث عن مورثہٖ)‘‘.
’’قولہ: (فلایجوز) لایقع مجزئاً عن حجۃ الأصل بل یقع عنہ النائب، فلہ جعل ثوابہ للأصل‘‘. (کتاب الحج: مطلب في الفرق بین العبادۃ والقربۃ:16/4، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:184/185
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی