کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پندرہویں شعبان کی رات ،یاپندرہویں شعبان کے دن قبرستان جانا کیسا ہے؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ احادیث مبارکہ میں قبرستان جانے کی ترغیب آئی ہے،اور پندرہ شعبان کی رات کو قبرستان جانا بھی حدیث سے ثابت ہے،اگر کوئی انفرادی طور کبھی چلا جاتا ہے تو جائز ہے،لیکن اجتماعی طور پر جانا اور اس کو ضروری سمجھنا اور نہ جانے والوں پر تنقید کرنا ،یا وہاں جاکر دیگر خرافات و بدعات میں مبتلاء ہونا درست نہیں ہے۔
پندرہ شعبان کے دن قبرستان جانا ثابت نہیں ،اس لیے اس کو سنت سمجھنا ،یا اس کا خاص اہتمام کرنا درست نہیں ہے۔
لما في جامع الترمذي:
عن سليمان بن بريدة عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كنت نهيتكم عن زيارة القبور فقد أذن لمحمد في زيارة قبر أمه فزوروها فإنها تذكر الآخرة.... قال أبو عيسى حديث بريدة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم لا يرون بزيارة القبور بأسا وهو قول ابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق رحمهم الله (كتاب الجنائز،باب ماجاء في الرخصة في زيارة القبور،رقم الحديث:1054،ط:دارالسلام)
وفي السعاية:
قال الطيبي في حاشية المشكوة فيه أن من أصرعلى أمرمندوب وجعله عزما ولم يعمل بالرخصة فقدأصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصرعلى البدعة أو منكر ........ والأمر إذا دار بين الكراهة والإباحة ينبغي الإفتاء، بالمنع لأن دفع مضرة أولى من جلب منفعة .... وقد مر أن الإصرار على المندوب يبلغه إلى حد الكراهة .(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،2/263،265، ط:سهيل).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 178/100،102