نماز جنازہ کا حق دار کون ہے؟

نماز جنازہ کا حق دار کون ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کا انتقال ہوگیا اور اس کے دو بیٹے ہیں زید اور عمرو، ان میں سے ایک بیٹا(زید) حافظ قرآن ہےاور دوسرا بیٹا (عمرو) غیر حافظ ہے، اب عمرو کا اپنے بھائی زید اور محلہ کے امام کی موجودگی میں اپنی والدہ کا نماز جنازہ پڑھانا کیسا ہے؟ اس حال میں کہ والدہ نے عمرو کے بارے میں وصیت بھی نہیں کی۔
وضاحت:حافظ زید عمر میں عمرو سے بڑا ہے ،لیکن زید نے جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تو لوگوں نے عمرو کو آگے کیا۔

جواب

جنازہ میں امامت کا حق دار ولی ہے، البتہ اگر امام مسجد ولی سے افضل ہو، تو اس کو مقدم کرنا مستحب ہے۔
صورت مسئولہ میں چونکہ زید اور عمرو دونوں ولی تھے اور دونوں کو حق حاصل تھا، لیکن زید نے انکار کیا اور عمرو نے جنازہ پڑھادیا ،تو جنازہ ادا ہوگیا،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(ویقدم في الصلاۃ علیہ السلطان) إن حضر (أو نائبہ) وھو أمیر المصر (ثم القاضي) ثم صاحب الشرط..... (ثم إمام الحي) فیہ إیہام، وذلک أن تقدیم الولاۃ واجب، وتقدیم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن یکون أفضل من الولي، وإلا فالولي أولی کما في المجتبی..... (ثم الولي) بترتیب عصوبۃ الإنکاح‘‘. (کتاب الصلاۃ، مطلب: في بیان من ھو أحق بالصلاۃ علی المیت:193/3،رشیدیۃ)
وفي الفتاویٰ السراجیۃ:
’’أولی الناس بالصلاۃ علی المیت الإمام الأعظم إن حضر، ثم السلطان، ثم القاضي، ثم إمام الحي، ثم الأب، ثم الإبن..... لو کان للمیت أخوان فالأکبر أولٰی‘‘. (کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنازۃ:133،رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:177/264)