نقد کوئی چیز خرید کر ادھار زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کا حکم

نقدکوئی  چیز خرید کر ادھار زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کے پاس رقم ہے اور وہ کوئی کاروبار نہیں کرتا،اپنے لیے گاہک تلاش کرتا ہے، جب پانچ چھے، گاہک بن جاتے ہیں تو دکان سے ان کو کھاد کی ایک ایک بوری پانچ سو روپے میں خرید کرد یتا ہے اوران گاہکوں سے ادھار سات سو روپے فی بوری تین ماہ میں وصول کرتا ہے، جب کہ وہ آدمی بوریاں خود نہیں لیتا بلکہ دکان دار کو پیسے دے دیتا ہے اور گاہک خود ہی اپنی اپنی بوری دکان سے اٹھا لیتے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ہر گاہک کو پانچ سو روپے دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دکان دار سے ایک ایک بوری کھاد کی لے لیں اور مجھے آپ سات سو روپے تین ماہ میں ادا کردیں،ان دو مسئلوں کے بارے میں قرآن و سنت کا کیا حکم ہے؟۔

جواب

پہلی صورت میں بیع کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ شخص اپنے گاہکوں کو اپنی طرف سے ان بوریوں پر قبضے کا وکیل مقرر کرے اور جب وہ بوریاں لے لیں تو پھران کو نفع پر ادھار بیچ دے۔

دوسری صورت میں بھی ضروری ہے کہ یہ شخص اپنے گاہکوں کو اپنی طرف سے خریداری کا وکیل بنائے، جب یہ دکان دار سے بوریاں خرید لائیں تو ان کو نفع پر ادھار بیچ سکتا ہے۔

دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ گاہکوں کی طرف سے اگر قیمت کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو مہلت دینے کے لیے مقررہ قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے۔

''عن ابن عباس،أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یستوفیہ،قال ابن عباس:وأحسب کل شيء مثلہ''.(الصحیح لمسلم،کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض:٢/٥،سعید)

(قولہ:لا بیع المنقول)أي لا یصح لنھیہ-علیہ الصلۃ والسلام-عن بیع مالم یقبض؛ولأن فیہ غرر انفساخ العقد علی اعتبار الھلاک''.(البحرالرائق، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ: ٦/١٩٤،رشیدیۃ)

''ومنہا: وہو شرط انعقاد البیع للبائع أن یکون مملوکا للبائع عندالبیع فإن لم یکن لا ینعقد، وإن ملکہ بعد ذلک بوجہ من الوجوہ إلا السلم خاصۃ،وہذابیع ما لیس عندہ ،ونہی رسول اللّٰہ -صلی اللہ علیہ وسلم- عن بیع ما لیس عند الإنسان، ورخص في السلم''.(بدائع الصنائع، کتاب البیوع: ٤/٣٤٠،رشیدیۃ)

''وفي الشامیۃ (قولہ: فوق قیمۃ) أي شراء بثمن مؤجل فوق مایباع بثمن حال؛ لأن قیمۃ المؤجل فوق قیمۃ الحال (قولہ: ویکون الربح) أي ماربحہ بائع المتاح بسبب التأجیل''.(رد المحتار، کتاب الوقف، مطلب في إذن الناظر للمستاجر بالعمارۃ: ٤/٤٤٠، سعید)

''وفي تحریر الکلام في مسائل الالتزام''.أما إذا التزم المدعی علیہ للمدعی أنہ إن لم یوفہ حقہ في وقت کذا وکذا فلہ علیہ کذا وکذا فھذا لا یختلف في بطلانہ؛ لأنہ صریح الربا''(ص: ١٧٦١،طبع بیروت).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی