کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں بعض علمائے کرام میت کے موقع پر قبرستان میں کچھ کھجوروں اور رقم پر حیلہ اسقاط باندھتے ہیں، اور بعض کچھ کھجور وغیرہ خیرات کے طور پر تقسیم کرتے ہیں، عقیدہ دیوبند کے مطابق یہ دونوں صورتیں جائز ہیں،یا نہیں؟ کچھ دلائل کے ساتھ وضاحت بھی فرمائیں۔
سوال میں ذکر کردہ دونوں صورتیں جائز نہیں، البتہ حیلہ اسقاط کی فقہاء نے مندرجہ ذیل چند شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے:
۔ فدیہ کا مال میت کی میراث سے نہ ہو۔
۔ اگر فدیہ کا مال میت کی میراث ہے، اور میت نے وصیت بھی کی ہے، توکل میراث کا ”ایک تہائی“ اتنا کم ہو کہ اس کے ذریعہ سے فدیہ میت کے ذمے سے ساقط نہ ہوتا ہو۔
۔ فدیہ کا مال میت کی میراث ہے، لیکن میت نے وصیت نہیں کی ہے، توکل میراث کا ”ایک تہائی“ حصے میں سے (جو نا کافی بھی ہے) صرف بالغ ورثاء ہی کا حصہ ہو، اور ان کی بخوشی اجازت بھی ہو، نا بالغ ورثاء کا کوئی حصہ نہ ہو اور ان کی اجازت معتبر ہوگی۔
۔ جس کو فدیہ کا مال دیا جا رہا ہو، وہ صاحبِ نصاب، مجنون اور نا بالغ نہ ہو۔
۔ فدیہ کا مال لینے والا اپنے آپ کو اس مال کا حقیقی طور پر مالک ومختار سمجھتا ہو، دباوٴ یا زبردستی کئے بغیر اپنی رضا مندی سے فدیہ کا مال بخوشی ورثاء کو دوبارہ واپسی کرتا ہو۔
۔ ”حیلہ اسقاط“ کرنے والا میت کا وارث، وصی یا وکیل ہو، ان کے اجبنی فضولی کی طرف سے جائز نہیں۔
۔ ”حیلہ اسقاط“ کو سنت یا واجب کا درجہ دے کر تجہیز وتکفین کے ساتھ لازم نہ کیا جائے۔
۔ اگر میت کی فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا علم نہ ہو، تو بلوغت کے بعد کی تمام نمازوں اور روزوں کا حساب لگا کر ہر نماز اور روزہ کے بدلہ میں فطرانہ کی قیمت فدیہ میں ادا کرنا ضروری ہے، لیکن آج کل مروجہ ”حیلہ اسقاط“ مفاسد کثیرہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، من جملہ مفاسد میں سے چند مفاسد مندرجہ ذیل ہیں:
۱) مروجہ حیلہ اسقاط میں فقیر مسکین کو فدیہ کے مال کا حقیقی طور پر مالک بنانے کے بجائے دوبارہ واپس لینے کے لیے مال دیا جاتا ہے۔
۲) عموماً میت اور میت کے ورثاء صاحب استطاعت ہوتے ہیں، مگر وہ پھر بھی ”حیلہ اسقاط“ کرتے ہیں۔
۳) فدیہ کا مال عموماً اغنیاء کو بھی دیا جاتا ہے، حالاں کہ اس مال کا مصرف صرف فقراء اور مساکین ہیں۔
۴) حیلہ اسقاط کا معاملہ عموماً تقسیم میراث سے پہلے ہوتا ہے، جس میں نا بالغ ورثاء کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے، جن کی اجازت بھی معتبر نہیں۔
۵) مروجہ حیلہ اسقاط لازم سمجھ کر کرلیا جاتا ہے، جو احداث فی الدین کے زمرے میں آتا ہے۔
۶) آج کل مروجہ حیلہ اسقاط شہرت اور لوگوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے، اور یہ ظاہر بات ہے کہ جن عبادات میں دنیاوی مقاصد غالب ہوں، اس کا ثواب نہیں ملتا۔
لہٰذا مروجہ حیلہ اسقاط مختلف مفاسد اور شرعی احکام سے نا واقفیت پر مبنی ہے، جس سے میت کو کچھ فائدہ نہیں ملتا، اور کرنے والے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
لمافي الاعتصام:
عن عائشة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد».... عن جابر بن عبد الله «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في خطبته: أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدي محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة». (باب: في ذم البدع وسوء منقلب أصحابها، ص: 51، 52، دار المعرفة)
وفي مجموعة رسائل ابن عابدين:
عن ابن عمر رضي الله عنه ما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما حق امرئ مسلم تمر عليه ثلاث ليال إلا ووصيته عنده، قال ابن عمر: فما مرت على ثلاث قط إلا وصيتي عندي، قال الطحاوي في حاشيته على «مراقي الفلاح»:
اعلم أنه ورد النص في الهوم بإسقاطه بالفدية واتفقت كلمة المشايخ على أن الصلاة كالصوم استحسانًا؛ لكونها أهممته، وإنما الخلاف بينهم في أن صلاة يوم كصومه أو كل فريضه كصوم يوم، وهو المعتمد، إذا علمت تعلم جهل من يقول إن إسقاط الصلاة لا أصل له، إذ هذا إبطال للمتفق عليه بين أهل المذهب، وأن المراد بالصوم صوم رمضان، وصوم كفارة اليمين، وظهار، وجناية على إحرام وقتل محرم صيدًا وصوم منذور ....... (الرسالة الثامنة، منه الجليل ذيل شفاء العليل: 1/368، 369، الأزهرية)
وفيه أيضًا:
ثم أقول: بيان الإسقاط والكفارة، والفدية، وكونه بوصية من الشخص أولى من أن يفعله عنه وارثه تبرعًا ..... ودفعا لقيمة أفضل؛ لأنها أنفع للفقراء إلا زمن الفاقة والقحط – والعياذ بالله- .
ومما ينبغي التنبه له أن أيمان العمر لا تنضبط لكثرتها، فالواجب على الشخص أن يكثر عند أداء الكفارة منها جدًا...
ومما ينبغي الاحتراز عنه الاستفهام من الدافع للفقير، فلا يقول الوصي للفقير: قبلت هذه كفارة صلاة عن فلان؟ ..... لأن هذا الكلام من باب التصديق الإيجابي...
ويجب الاحتراز من بقاء الصرة بيد الفقير أو الوصي بل كل مرة بصير استلامها لكل منهما ليتم الدفع والهبة بالقبض والتسليم في كل مرة...
ويجب الاحتراز أيضًا عن إحضار قاصر أو معتوه أو رقيق أو مدبرًا؛...
ويجب الاحتراز أيضًا عن إحضار غني أو كافر...
ويجب الاحتراز أيضًا عن جمع الصرة واستيهابها أو استقراضها من غير مالكها، أو من أحد الشريكين بدون إذن الآخر.
ويجب الاحتراز من التوكيل باستقراضها أو استيهابها إلا بوجه الرسالة، وإلا فبالإصالة كما علمت.
ويجب الاحتراز من أن يدبرها أجنبي إلا بوكالة كما ذكرنا، أو أن يكون الوصي أو الوارث كما علمت.
ويجب الاحتراز من أن يلاحظ الوصي عند دفع الصرة للفقير الهزل أو الحيلة، بل يجب أن يدفعها عازمًا على تمليكها منه حقيقة لا تحيلًا، ملاحظًا أن يحترز عن كسر خاطر الفقير بعد ذلك، بل يرضيه بما تطيب به نفسه كما قدمناه، وبقي بعض محترزات ذكرها سيدي الوالد في «شفاء العليل» فعليك بها. (الرسالة الثامنة، منه الجليل ذيل شفاء العليل: 1/370، 372، 395، 396، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/148،155