کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عرض یہ کہ زید نے دودھ کا کاروبار شروع کیا تھا اور دودھ میں پانی ملاکر فروخت کرتا تھا، آج اس کا کاروبار بڑھ گیا اور کثیر مقدار میں نفع حاصل کر رہا ہے، اب زید کہتا ہے کہ میں اپنے نفع میں سے وہ نفع جو اس کو دودھ میں پانی ملانے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے، کو جدا کرو اور حال یہ کہ حاصل شدہ نفع مجہول ہے۔
مفتیان کرام کی اس بارے میں کیا رائے ہے اور کیا اس کی یہ تمام تجارت حرام ہے یا بعض؟
واضح رہے کہ دودھ میں پانی ملاکر اس طرح فروخت کرنا کہ لوگوں کو پانی کا علم نہ ہو، تو یہ دھوکہ ہے، جوکہ جائز نہیں، احادیث میں اس پر وعید آئی ہے، صورتِ مسئولہ میں زید کو دودھ میں پانی ملانے کے عوض جتنا نفع ہوا ہے، اس میں خوب غور کرکے ایک محتاط اندازے سے الگ کرکے مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹا دے، اگر اصل مالک یا کسی وارث کا علم نہ ہو، تو اصل مالک کی طرف سے صدقہ کردے۔لما في سنن أبي داؤد:
’’حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل، حدثنا سفیان بن عیینۃ، عن العلاء، عن أبیہ، عن أبي ھریرۃ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر برجل یبیع طعاما فسألہ کیف تبیع؟ فأخبرہ، فأوحي إلیہ أن أدخل یدک فیہ، فأدخل یدہ فیہ فإذا ھو مبلول، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (لیس منا من غش)‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب في النھي عن الغش، رقم الحدیث: ٣٤٥٢:دار السلام للنشر والتوزیع)
وفي صحیح مسلم:
وحدثني یحیی بن ایوب وقتیبۃ وابن حجر جمیعا عن إسماعیل بن جعفر قال ابن أیوب حدثنا إسماعیل، قال أخبرني العلاء عن أبیہ عن أبي ھریرۃ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر علی صبرۃ طعام فأدخل یدہ فیھا فنالت أصابعہ بللا فقال: (ما ھذا یا صاحب الطعام)؟ قال: أصابتہ السماء یا رسول اللہ، قال: (أفلا جعلتہ فوق الطعام کي یراہ الناس من غش فلیس مني)‘‘.(کتاب الإیمان: رقم الحدیث: ٢٨٤: دار السلام للنشر والتوزیع)
وفي رد المحتار:
’’لو مات الرجل وکسبہ من بیع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوۃ یتورع الورثۃ، ولا یأخذون منہ شیأا و ھو أولی بھم ویردونھا علی أربابھا إن عرفوھم، وإلا تصدقوا بھا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، ٩/ ٦٣٥: رشیدیۃ).
فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/02