کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں تین مسجدیں ہیں (١) مسجد ابو بکر (٢) مسجد عمر فاروق (٣) مسجد طلحہ
اور مسجد ابو بکر میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے اور ان کے نمازی جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد عمر فاروق اور مسجد طلحہ میں جاتے ہیں۔
اب ازروئے شرع مسجد عمر فاروق اور مسجد طلحہ والا پیش امام نماز جمعہ پڑھانے کی وجہ سے مسجد ابو بکر والے مقتدیوں سے اپنے لیے تنخواہ وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ امامت کا معاملہ عقد اجارہ ہے، جو امام اور مسجد کی کمیٹی کے درمیان طے شدہ ہے، لہذا امام کی اجرت کی ادائیگی بھی ان کے ذمے ہے، نہ کہ اپنی یا دوسری مسجد کے مقتدیوں پر۔
لہذا مذکورہ صورت میں ان دونوں اماموں کی تنخواہ ا اپنی مسجد کی کمیٹی ادا کرے گی۔لما في الدر:
’’(والثاني) وھو الأجیر (الخاص) ویسمی أجیر وحد (وھو من یعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصیص) ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ‘‘.(کتاب الإجارۃ، ٩/ ١١٧: رشیدیۃ)
وأیضا فیہ:
’’(لا تصح الإجارۃ لعسب التیس) وہو نزوہ علی الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاھي)، ولو أخذ بلا شرط یباح (و) لأجل الطاعات، مثل (الأذان والحج والإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ) ویفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان‘‘.(کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستیجار علی الطاعات، ٩/ ٩٦: رشیدیۃ)
وفي الدر مع الرد:
’’(ویبدأ من غلتہ بعمارتہ) ثم ما ھو أقرب لعمارتہ، کإمام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون بقدر کفایتھم‘‘.
’’(وقولہ إلی آخر المصالح): أي مصالح المسجد یدخل فیہ المؤذن والناظر، ویدخل تحت الإمام الخطیب لأنہ إمام الجامع‘‘.(کتاب الوقف، ٦/ ٥٦٣: رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:137/ 174
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی