مال کے حصول کے لیے کفار کی نعشوں کو نکالنے اور بر آمد اشیاء کو فروخت کرنے کا حکم

مال کے حصول کے لیے کفار کی نعشوں کو نکالنے اور بر آمد اشیاء کو فروخت کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں پرانے زمانے کے کفار کی نعشیں بر آمد ہوتی ہیں، جس کے ساتھ سونا اور قیمتی چیزیں پائی جاتی ہیں اور لوگ بھی اس نعشوں کو نکالتے ہیں ،ان قیمتی چیزوں کے حصول کے لیے تو ان نعشوں کا نکالنا اور نکالی گئی چیزوں کی (خاص کر جب بت یا صلیب کا نشان ہو) کیا حکم ہے؟ کیا ان کا فروخت کرنا جائز ہے؟

جواب

مال کے حصول کے لیے کفار کی نعشوں کو نکالنے میں شرعا حرج نہیں اور اس صورت میں ملنے والی اشیاء جیسے سونا، چاندی اور ان سے بنی ہوئی اشیاء، ان پر اگر اسلامی علامات ہو، تو اس پر لقطہ کے احکام جاری ہوں گے اور اگر اس پر دور جاہلیت کا یا کسی غیر مسلم کی ملکیت جیسے بت یا صلیب کا نشان ہو، تو جس کو وہ چیز ملی ہے اسی کی ملکیت ہوگی اور اس مال کا خمس (کل مال کا پانچواں حصہ) ادا کرنا ضروری ہے جو کہ یتیم، مسکین یا مسافر کو ادا کیا جائے گا، خمس کی ادائیگی کے بعد اس کا فروخت کرنا درست ہے، یہ حکم ملکیتی اور غیر ملکیتی زمین دونوں کا ہے، اور اگر کوئی نشان نہ ہو تو ملکیتی زمین میں ملنے والی اشیاء مالک کی ملکیت ہوں گی، اور خمس کی ادائیگی کے بعد اس کا فروخت کرنا درست ہے، اور اگر غیر ملکیتی زمین میں ایسی چیز ملے، تو اس پر لقطہ کے احکام جاری ہوں گے۔

لما في الدر مع الرد:

لا بأس بنبش قبورهم طلبا للمال. تاتارخانية، وعبارة الخانية: «قبور الكفار» فعمت الذمي) قوله: (وعبارة الخانية) قال في النهر: ولم أر نبش قبور أهل الذمة ويجب أن يقال: إن تحقق ذلك ولم يكن له وارث إلا بيت المال جاز نبشه، ثم نقل ما في الخانية، وقال: وهذا يعم الذمي اھ. لكن لا يخفى أن ما في الخانية ليس فيه التقييد بتحقق المال، بل الظاهر أن المراد عند توهم ذلك؛ لأنه عند التحقق يجوز النبش في المسلم لحق آدمي كسقوط متاع أو تكفين بثوب مغصوب أو دفن مال معه ولو درهما كما في جنائز البحر. فافهم.(كتاب الجهاد، مطلب: في بيان نسخ المثلة: 6/211، رشيدية)

وفي الدر مع الرد:

(ولو) وجدت (دفين الجاهلية) أي: كنزًا (خمس) لكونه غنيمة. (وما عليه سمة للإسلام من الكنوز) نقداً أو غيره (فلقطة)، (وما عليه سمة الكفر خمس، أي: سواء كان في أرضه أو أرض غيره أو أرض مباحة. (كتاب الزكاة، باب الركاز: 3/306، 307، حقانية)

وفي مبسوط السرخسي:

وإذا وجد الرجل الركاز من الذهب والفضة والجواهر مما يعرف أنه قديم فاستخرجه من أرض الفلاة ففيه الخمس، وما بقي فهو له فهذا على وجهين: إما أن يكون فيه علامات الإسلام ...... فيكون بمنزلة اللقطة، فعليه أن يعرفها، أو يكون فيه شيء من علامات الشرك ....... فحينئذ فيه الخمس .... فإن لم يكن به علامة يستدل بها فهو لقطة في زماننا .... وإن وجده في دار رجل فإن قال صاحب الدار: أنا وضعته، فالقول قوله، لأنه في يده، وإن تصادقا على أنه ركاز ففيه الخمس. (كتاب الزكاة، باب المعادن وغيرها: 1/284، بيت الأذكار).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 176/78