كان ميں اذان صرف بچپن کے ساتھ خاص ہے

كان ميں اذان صرف بچپن کے ساتھ خاص ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید اور اس کے گھر والوں کو یہ پتہ نہیں کہ زید کو بچپن میں کانوں میں اذان اور اقامت ہوئی ہے اور زید اب بالغ ہو گیا ہے ، کیا اب اذان دے سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ نو مولود بچے کے دائیں کان میں اذان دینا اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنت ہے ،لیکن یہ اذان اور اقامت بچپن کے ساتھ خاص ہے، لہذا بلوغت کے بعد اذان اور اقامت کی ضرورت نہیں ہے ۔

لما في سنن أبي داود:

حدثنا مسدد حدثنا یحیی عن سفیان، قال: حدثني عاصم بن عبید الله بن أبي رافع عن أبیه، قال: رأیت رسول الله ﷺ أذّن في الحسن بن علي حین ولدته فاطمة بالصلاة. (کتاب الأدب، باب في الصبي یولد فیؤذن في أذنه: 6/623،دار إحیا ء التراث العربي)

وفي مرقاۃ المفاتیح:

(وعن أبي رافع رضي الله عنه) أي مولی النبي ﷺ (قال: رأیت رسول الله ﷺ اذّن في أذن الحسن بن علی) بضم الذال ویسکن (حین ولدته فاطمة) یحتمل السابع وقبله (بالصلاة) أي بأذانها ...والأظهر أن حکمه الآذان في الأذن أنه  یطرق سمعه أول وهلة ذکر الله تعالیٰ علی وجه الدعاء إلی الإيمان والصلاة التي هي أم الأرکان. (کتاب الصید والذبائح ، باب العقیقه ، ج: 7، ص: 750، ط الرشیدیة)

وفي تقریرات الرافع:

قال السندي: فیرفع المولود عند الولادة  علی یدیه مستقبل القبلة ویؤذن في أذنه الیمنی ویقیم في الیسرى ویلتفت  فیهما بالصلاة لجهة الیمن وبالفلاح لجهة الیسار، وفائدة الآذان في أذنه، أنه یدفع أم الصبیان عنه. (کتاب الصلاة، باب الاذان: 1/45، ایچ ایم سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 154/124

آداب

مندرجہ بالا موضوع سے متعلق مزید فتاوی
اس کیٹیگری میں کوئی سوال موجود نہیں برائے مہربانی دوبارہ تلاش کریں.