کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ١۔ اگر کوئی شخص کسی قبر کے چاروں جانب ماربل کے پتھر اس طرح کھڑے کرے کہ اس کی مٹی پھیلنے سے رکی رہے، او ران پتھروں کے درمیان اوپر کا حصہ کھلا رہے، یعنی درمیان میں صرف مٹی ہو تو جائز ہے یا نہیں۔
٢۔ ان پتھروں پر کوئی آیت ، حدیث یا شعر لکھنا جائز ہے یا نہیں۔
٣۔ سر کی جانب کوئی اور پتھر لگا کر میت کا نام بطور نشانی لکھنا کیسا ہے؟
١۔ ماربل زینت اور خوب صورت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور قبر پختگی اور زینت کا محل نہیں، لہٰذا ماربل لگانے سے اجتناب کیا جائے،البتہ قبر کی پختگی کے لیے تاکہ مٹی اِدھر اُدھر نہ پھیلے قبر کے ارد گرد پتھر یا ایک ایک اینٹ کے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٢۔ قبر پر قرآن کی آیت ، حدیث یا مدح کے اشعار لکھنا مکروہ ہے۔
٣۔ بطور علامت نام تحریر کرنا یا کوئی پتھرنشانی کے طور پر رکھنا تاکہ قبر تلاش کرنے میں آسانی ہو اس کی گنجائش ہے۔
(ولا بأس برش الماء عليه) حفظا لترابه عن الاندراس (ولا يربع) للنهي (ويسنم) ندبا. وفي الظهيرية وجوبا قدر شبر (ولا يجصص) للنهي عنه (ولا يطين، ولا يرفع عليه بناء.'' قال العلامۃ ابن عابدین۔ رحمہ اﷲ۔ (قوله: ولا يجصص) أي لا يطلى بالجص بالفتح ويكسر (قوله ولا يرفع عليه بناء) أي يحرم لو للزينة.( رد المحتار، کتاب الجنائز ٢/٢٣٧، سعید)
''ولا بأس بالکتابۃ إن احتیج إلیھا حتی لا یذھب الأثر لا يمتھن''قال العلامۃ ان عابدین: فأما الکتابۃ بغیر عذر فلا اھ حتی أنہ یکرہ کتابۃ شی علیہ من القرآن أو الشعر أو إطرا مدح لہ ونحو ذلک حلیۃ ملخصا.'' ( ردا لمحتار:٢/٢٣٧،٢٣٨، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی