فرض حج سے پہلے حج بدل کیا جاسکتا ہے؟

فرض حج سے پہلے حج بدل کیا جاسکتا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ابھی تک حج نہیں کیا او رمیری والدہ کا انتقال ہو چکاہے ، اب میں چاہتا ہوں کہ اپنی والدہ کا حج بدل کراؤں، تو میں نے اپنی چچی صاحبہ کو بدل میں حج کرنے  کہا تو چچی صاحبہ نے کہا کہ پہلے مجھے حج کرائیے کیوں کہ میں نے ابھی تک حج نہیں کیا، اس کے بعد میں آپ کی والدہ کے لیے حج پر جاسکوں گی، تو اس معاملے میں آپ کے جواب کا طالب ہوں کہ آیا ان کا پہلے حج کرنا ضروری ہے؟اگر میں نے حج نہیں کیاتو کیا والدہ کوحج بدل کرانے سے پہلے میرا حج کرنا ضروری ہے؟

جواب

صورت مسؤلہ میں شریعت مقدسہ کی روسے ان کو پہلے حج کرانا ضروری نہیں ہے ،بلکہ افضل وبہتر یہ ہے کہ جس نے اپنا فرض حج ادا کر لیا ہو اور احکام حج سے واقف ہو اس کو بھیجنا چاہیے او راگر ایسے صفات والے آدمی نہ ہوں، جواوپر ذکر کی گئی ہیں توایسے شخص کو بھی بھیجنا جائز ہے،جس پر حج فرض نہ ہو اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، ہاں اگر آپ پر حج فرض ہو گیا ہے تو اپنے فریضہ حج کو ادا کر لیں،ورنہ فریضہ حج میں تاخیر کرنے سے گناہ گار ہوں گے۔

أن یکون حج المأمور بمال المحجوج عنہ فإن تطوع الحاج عنہ بمال نفسہ لم یجز عنہ حتی یحج بمالہ وکذا إذا أوصی أن یحج بمالہ ومات فتطوع عنہ وارثہ بمال نفسہ،کذا فی البدائع.(الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر ١/٢٥٧،رشیدیۃ)

وقال فی الفتح أیضا والأفضل أن یکون قد حج عن نفسہ حجۃ الإسلام خروجا عن الخلاف، ثم قال: والأفضل إحجاج الحر العالم بالمناسک الذی حج عن نفسہ۔۔۔۔قال فی البحر: والحق أنہا تنزیہیۃ علی الآمر لقولہم والأفضل إلخ تحریمیۃ علی الصرورۃ المأمور الذی اجتمعت فیہ شروط الحج ولم یحج عن نفسہ لأنہ أثم بالتأخیر.(رد المحتار، کتاب الحج، مطلب فی حج الصرورۃ ٢/٦٠٣،سعید)

ثم الصحیح من المذہب فیمن حج عن غیرہ أن أصل الحج یقع عن المحجوج عنہ ولہذا لا یسقط بہ الفرض عن المأمور وہو الحاج، کذا فی التبیین والأفضل للإنسان إذا أراد أن یحج رجلا عن نفسہ أن یحج رجلا قد حج عن نفسہ، ومع ہذا لو أحج رجلا لم یحج عن نفسہ حجۃ الإسلام یجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر، کذا فی المحیط.(الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر ١/٢٥٧،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی