کیا فرماتے ہیں علمائے کرام او رمفتیان عظام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ حج اور عمرہ کے دوران کیا عورت چہرے پر حجاب لگا کرمنہ ڈھانک سکتی ہے؟ یا چہرے پر کپڑا لگنے کی وجہ سے اس پر دم لازم ہوگا؟
واضح رہے کہ عورت کے لیے نامحرموں سے پردہ کرنا ایک الگ حکم ہے اور حالت احرام میں چہرے کو کپڑا لگنے سے بچانا الگ حکم ہے، حالت احرام میں دونوں احکام پر بیک وقت عمل کرنا ضروری ہے۔
اب اس حکم کی انجام دہی کے لیے عورت حسب سہولت کوئی بھی ایسی صورت اختیار کر لے کہ پردہ بھی ہو جائے اور احرام کی پابندی پر عمل بھی، مثلاً: ایسے ہیٹ کا استعمال کرے جس کے آگے چہرہ ڈھانپنے کے لیے کپڑا لگا ہوا ہو یا گھونگھٹ کو اس طرح گرائے رکھے کہ پردہ بھی ہو او ر کپڑا بھی چہرے پر نہ لگے وغیرہ۔
یہ سب تفصیل اس صورت میں ہے کہ عورت حالت احرام میں ہو، احرام اتارنے کے بعد پردے کا حکم عام حالت کی طرح ہے۔
نیز اگر عورت نے ایک دن کامل یا ایک رات کامل چہرے کو کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ لیا بایں طور کہ کپڑا چہرے پر لگتا رہا، تو جنایت کامل ہونے کی وجہ سے دم لازم ہو گا اور اس سے کم ڈھانپنے میں صدقہ واجب ہو گا۔
"وأجاز الشافعية والحنفية ذلك بوجود حاجز عن الوجه فقالوا: للمرأة أن تسدل على وجهها ثوباً متجافياً عنه بخشبة ونحوها، سواء فعلته لحاجة من حر أو برد أو خوف فتنة ونحوها، أو لغير حاجة، فإن وقعت الخشبة فأصاب الثوب وجهها بغير اختيارها ورفعته في الحال، فلا فدية. وإن كان عمداً وقعت بغير اختيارها فاستدامت، لزمتها الفدية".(الفقه الإسلامي وأدلته :3/ 599).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 159/296