اگر کسی کو عمرہ نہیں کرنا ہے تو کیا وہ میقات سے نہیں گزر سکتا اور حدود حرم میں داخل نہیں ہو سکتا؟ اور اگر حرم میں داخل ہو جائے تو اس پر دم لازم ہو گا یا نہیں؟
اس بات پر تو اہل ِ علم کا اتفاق ہے کہ آفاقی (یعنی میقات سے باہر رہنے والے ، مثلاً: ریاض اور دمام کے رہنے والے، اسی طرح ہندوستان وپاکستان کے رہنے والے) جب بھی حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جائیں تو انہیں پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر یا اس کے مقابل یا اس سے پہلے پہلے احرام باندھنا ضروری ہے۔
اگر آفاقی حدود میقات کے اندر مثلاً: مکہ مکرمہ یا تنعیم (جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے) یا جدہ سے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی ادائیگی کرے گا توایک دم ( یعنی ایک قربانی) واجب ہو گا، ہاں اگر وہ حج یا عمرہ کی ادائیگی سے قبل میقات پر آکر نیت کر لے تو دم ساقط ہو جائے گا۔
اگر کوئی آفاقی حج یا عمرہ کی نیت کے بغیر مکہ مکرمہ جانا چاہتا ہے تو کیا وہ احرام کے بغیر جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے، لیکن تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ احتیاط اسی میں ہے کہ جب بھی آفاقی مکہ مکرمہ جائے تو وہ احرام باندھ کر ہی جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ، امام مالک رحمہ الله اور امام احمد بن حنبل رحمہ الله کی رائے یہ ہے کہ حرم کے تقدس کو باقی رکھنے کے لیے اسے احرام باندھ کر ہی مکہ مکرمہ جانا ضروری ہے۔ لیکن امام شافعی رحمہ الله کی رائے یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، جیسا کہ امام نووی رحمہ الله نے ذکر کیا ہے۔
جمہور علماء حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کو دلیل کے طور پر پیش فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: احرام کے بغیر میقات سے آگے نہ بڑھو۔ اسی طرح مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص بغیر احرام کے میقات سے آگے نہ بڑھے۔
عصر حاضر میں تاجر اور ڈرائیور وغیرہ باربار مکہ مکرمہ آتے جاتے رہتے ہیں اور انکے لیے ہر مرتبہ احرام کو لازم قرار دینے میں دشواری لازم آئے گی، لہٰذا وہ حضرات جن کو کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی وجہ سے بار بار مکہ مکرمہ جانا پڑتا ہے، ان کے لیے بغیر احرام کے مکہ مکرمہ جانے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 159/296