عاشورہ کو قبرستان جانا،۲۳یا۲۷ ویں رمضان کی رات کومساجد میں چاول یامٹھائی تقسیم کرنے کا حکم

عاشورہ کو قبرستان جانا،۲۳یا۲۷ ویں رمضان کی رات کومساجد میں چاول یامٹھائی تقسیم کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے بعض علمائے کرام محرم کے دسویں تاریخ پر قبروں پر جانا اور ان پر کھجوروں کے شاخوں کو ڈالنا مستحب اور باعث ثواب سمجھتے ہیں، کیا اس دن یہ عمل جائز ہے یا نا جائز ہے؟

 اسی طرح یہی علماء رمضان کے ۲۳ تاریخ کو تراویح کے بعد سورہ عنکبوت پڑھتے ہیں اور مٹھائیوں پر دم کر کے مسجد میں تقسیم کرتے ہیں، اور اس طرح ۲۷ ویں رات کو لوگ چاول بنا کر مساجد میں کھاتے ہیں کیا یہ دونوں عمل یا ایک عمل علماء دیوبند کے مطابق مستحب اور جائز ہے ،یا بدعت ہے، وضاحت فرمائیں۔

جواب

قبرستان جانا مستحب عمل ہے، کیوں کہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کو کسی دن اور ہیئت وغیرہ کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں، اسی طرح قبروں پر شاخیں گاڑنا یا ان کے اوپر رکھنا بھی درست نہیں، خاص طور پر جب کہ نیت یہ ہو کہ پھولوں سے قبر کی زینت ہوگی، تو یہ بطریق اولیٰ ممنوع ہے، اسی طرح رمضان کی ۲۳ تاریخ کو تراویح کے بعد سورہ عنکبوت پڑھ کر مٹھائیوں پر دم کر کے مسجد میں تقسیم کرنا بدعت ہے، چاول بنا کر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے دن یا حالت کو خاص کرنا بدعت ہے، نیز ۲۷ ویں رات کو تقسیم کرنے میں دن اور رات کی تعیین کی جاتی ہے، اس لیے یہ بدعت اور ممنوع ہے۔

لمافي مرقاة المفاتيح:

من أصر على أمر مندوب وجعله عزمًا ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر. (كتاب الصلاة، باب الدعاء في التشهد، الفصل الأول، رقم الحديث: 937، 3/31، رشيدية)

وفي عمدة القاري:

ولهذا أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء. (كتاب الوضوء، بيان استنباط الأحكام الأول: 3/180، دار الكتب).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/148،155