شب برأت کی رات عبادت اور کھانے کا اہتمام کرنا

شب برأت کی رات عبادت اور کھانے کا اہتمام کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شب براءت کی رات عبادت کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شب براءت  میں فی نفسہ عبادت کرنا بغیر کسی تعیین وتفصیل کے مستحب ہے، البتہ اس رات کو مخصوص طریقے سے نماز پڑھنا، لوگوں کا جمع ہوکر مسجد میں ذکر کے حلقے لگانا ،نفل نماز کےلئے جماعت کا اہتمام کرنا اور غیر ثابت امور کو ضروری سمجھ کر کرنا اور اس کو رواج دینا یہ سب بدعت ہیں ،ان سے بچنا ضروری ہے ۔
کھانا کھلانا یا تقسیم کرنا  صدقہ ہے ،اور احادیث مبارکہ  میں صدقہ کرنے کہ فضیلت وارد ہوئی ہے،لیکن اس کےلئے کیفیات اور اوقات کی تخصیص کرلینا ،اور اس کو پندرھویں شعبان کے دن یا رات کے ساتھ مخصوص کرنا،اور اسی دن یا رات میں ہی اس کو ضروری سمجھ کر اہتمام کرناشرعا درست نہیں ہے ۔
لمافي مرقاة المفاتيح :
وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا يومها، فإن الله تعالى ينزل فيها لغروب الشمس إلى السماء الدنيا فيقول:ألا من مستغفر فأغفر له؟ ألا مسترزق فأرزقه؟ ألا مبتلى فأعافيه؟ ألا كذا ألا كذا حتى يطلع الفجر ".
وقال صاحب المرقاۃ تحت هذا الحدیث:
واعلم إن المذكورة في اللآلىء أن مائة ركعة في نصف شعبان بالاخلاص عشر مرات في كل ركعة مع طول فضله للديلمي وغيره موضوع وفي بعض الرسائل قال علي بن إبراهيم ومما أحدث في ليلة النصف من شعبان الصلاة الألفية مائة ركعة بالإخلاص عشرا عشرا بالجماعة واهتموا بها أكثر من الجمع والأعياد لم يأت بها خبر ولا أثر إلا ضعيف أو موضوع.(کتاب الصلاة، باب قیام شهر رمضان، الفصل الثالث ،رقم الحدیث:1308:رشیدية).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/139