کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل خوشی کی تقریبات میں مختلف قسم کے ہار پہنائے جاتے ہیں، کہیں پر پیسوں کے اور کہیں پر مختلف قسم کے پھولوں کے، یہ سلسلہ دینی اداروں میں بھی چلتا ہے، چنانچہ مدارس میں جب حفاظ اور علماء کی دستار بندی ہوتی ہے، تو یہ سلسلہ بھی چلتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس عمل کی کس حد تک گنجائش ہے؟
صورت مسئولہ میں پیسوں اور پھولوں والا ہار پہننے یا پہنانے کا ثبوت کتاب اللہ، سنت رسول ﷺ اور خیر القرون سے نہیں ملتا، بلکہ یہ بدعت ہے اور دیگر مروجہ رسوم کے حکم میں ہے، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، لہٰذا اس سے احتراز لازم اور ضروری ہے۔لما في مشکاۃ المصابیح:
عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:«من أحدث في أمرنا ھذا مالیس فیہ فھو ردٌ».(کتاب الإیمان: باب الإعتصام بالکتاب والسنۃ:27/1،قدیمی)
وفي النسائي:
قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم:«کل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ في النار».(کتاب الصلاۃ:باب کیفیۃ الخطبۃ،رقم الحدیث:1405،بیروت).
وفي رد المحتار:
’’ما أحدث علی خلاف الحق الملتقی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبھۃ واستحسان وجعل دینا قویما وصراطا مستقیما. ۱ھـ‘‘(کتاب الصلاۃ:باب الإمامۃ: 560/1،رشیدیۃ).
فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/269