خوشی اور غم کی تقاریب کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم

خوشی اور غم کی تقاریب کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے خاندان کے بعض معززین نے ایک کمیٹی ترتیب دی ہے، کمیٹی کا مقصد درج ذیل ہے۔
خاندان میں خوشی اور غمی کے موقع پر خاندان والوں کے ساتھ تعاون کرنا، وہ اس طرح کی یہ کمیٹی خاندان کے ہر شادی شدہ افراد سے ماہانہ دو سو روپے بطور صدقہ وصول کرنا ہے، اور ان پیسوں سے سامان، ٹینٹ، برتن وغیرہ خریدتے ہیں، جہاں فوتگی ہو وہاں اپنا ٹینٹ لگاتے ہیں اور دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، البتہ شادی کے موقع پر صرف ٹینٹ اور برتن استعمال کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت اس طرح انتظام کے لیے کمیٹی بنانا درست ہے؟ یا پھر اس کی کوئی  متبادل صورت ہوگی۔

جواب

صورت مسئولہ میں چند خرابیوں کی بناء پر کمیٹی تشکیل دینا اور فنڈ جمع کرنا ناجائز ہے:
(١) شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
(٢) اس فنڈ کو بطور نمود وریا اور رسم ورواج کے جمع کیا جاتا ہے۔
(٣) ہر ہر شریک فنڈ کو لازم سمجھ کر جمع کرتا ہے۔
(٤) اگر کوئی شخص جمع کردہ فنڈ واپس لینا چاہے، تو اسے واپس نہیں دیا جاتا۔
(٥) مذکورہ فنڈ حلال وحرام میں امتیاز کیے بغیر جمع کیا جاتا ہے۔
(٦) اس فنڈ کی مقدار اور تاریخ ادائیگی وغیرہ امور بھی اس کی تعیین والتزام پر دلالت کرتے ہیں۔
تاہم مذکورہ تفصیل کو دیکھتے ہوئے کمیٹی تعیین والتزام کیے بغیر صرف اللہ کی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے سامان اور رقم کو جمع کرے اور پھر اسے خوشی اور غمی کے موقع پر رسم ورواج سے بچتے ہوئے بقدر ضرورت خرچ کرے، تو اس میں حرج نہیں، بلکہ یہ ایک مستحسن امرہے۔
لما في مشکاۃ المصابیح:
’’وعن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ قال: قال رسول اللہﷺ: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفسہ منہ‘‘. (کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني، ١/ ٥٤٤:دار الکتب)
وفیہ أیضا:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا، قالت: قال رسول اللہ ﷺ: من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد‘‘. متفق علیہ.(کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول: ١/ ٤٨:دار الکتب)
وفي التنویر مع الرد:
’’(وصلۃ الرحم واجبۃ ولو) کانت (بسلام) وتحیۃ وھدیۃ ومعاونۃ ومجالسۃ ومکالمۃ وتلطف وإحسان ویزورھم غباً لیزید حبا‘‘.
(قولہ:وصلۃ الرحم واجبۃ)...... قال قوم:ھي قرابۃ کل ذي رحم محرم وقال آخرون: کل قریب محرما کان أو غیرہ اھـ، والثاني: ظاھر إطلاق المتن. قال النووي في شرح مسلم: وھو الصواب‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ: ٩/ ٦٧٨:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/237