حج میں قربانی اور رمی کی ترتیب

حج میں قربانی اور رمی کی ترتیب

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ سرکاری حج والے کہتے ہیں کہ تمام حجاج کی قربانی مغرب تک ہوجائے گی، اس کے بعد آپ حلق کرلیں۔آپ سے سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کردی، تو ترتیب واجب کے چھوٹ جانے کی وجہ سے اس پر دم لازم آئے گا۔

وفي الدر مع الرد:
’’فیجب في یوم النحر أربعۃ أشیاء:الرمي،ثم الذبح لغیر المفرد،ثم الحلق،ثم الطواف،لکن لاشيئ علی من طاف قبل الرمي والحلق؛نعم یکرہ لباب وقد تقدم کما لاشيء علی المفرد إلا إذا حلق قبل الرمي؛ لأنہ ذبحہ لا یجب.
والحاصل أن الطواف لایجب ترتیبہ علی شيئ من الثلاثۃ وإنما یجب ترتیب الثلاثۃ الرمي ثم الذبح ثم الحلق لکن المفرد لا ذبح علیہ فیجب علیہ الترتیب بین الرمي والحلق فقط‘‘.(کتاب الحج، باب الجنایات:۳/۶۶۸،رشیدیۃ).
وفي المبسوط للسرخسي:
’’قال رضي اللہ تعالیٰ عنہ:ویبدأ إذا وافی منی برمي جمرۃ العقبۃ ثم بالذبح إن کان قارنا أو متمتعا، ثم بالحلق لحدیث عائشۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہا ،أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ،قال:إن أول نسکنا في ھذا الیوم أن نرمي ثم نذبح ثم نحلق‘‘.(کتاب الحج، باب رمي الجمار:۲/۷۳،غفاریۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:179/98)