حج بدل کے لیے کیا شرائط ہیں؟

حج بدل کے لیے کیا شرائط ہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کیا حج بدل کسی کی طرف سے ادا کرنا جائز ہے یا کہ نہیں؟ اور کن کن لوگوں کی طرف سے ادا کرنا جائز ہے او رکن صورتوں اور حالتوں میں جائز ہے او رکن موقعوں پر جائز ہے اور حج بدل کے لیے احرام کہاں سے باندھا جائے گا اور حج بدل کی نیت اور ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے اور دوسری ضروری باتیں جو حج بدل کے متعلق ہیں ان کو مفصلاً تحریر فرماکر مشکور ممنون فرما دیں عین نوازش ہو گی، اور آیا مردے کی طرف سے ادا کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ اس کی کیا صورت ہے؟

جواب

حج بدل اس آدمی کی طرف سے ادا کیا جاسکتا ہے کہ جس پر خود حج فرض ہوچکا ہو لیکن خود وہ کسی ایسی دائمی عذر میں مبتلا ہو گیا ہو جس کی وجہ سے وہ موت تک خود حج ادا نہیں کرسکتا ہے تو اس کی طرف سے نیابت کے طور پر دوسراآدمی حج ادا کرسکتا ہے،نیابت بوجہ عذر اور عجز دائمی کے تو جائز ہے، لیکن اگر وہ عذر موت سے پہلے ختم ہو گیا تو دوبارہ حج لازم اور فرض ہو گا ، نیز حج کرنے والا اصل کی طرف سے نیت کرے گا، نیز احرام اس مقام سے باندھے گا جہاں سے آمر کہے گا او راگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا تو پھر میقات سے احرام باندھے گا باقی شرائط اور تفصیل احکام حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اﷲ کتاب جواہر الفقہ میں تفصیل سے ہیں وہاں دیکھ لی جائیں۔

"وتقبل النیابۃ عند العجز فقط لکن بشرط دوام العجز لأنہ فرض العمر حتی تلزم الاعادۃ بزوال العدز".(رد المحتار، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ٢/٥٩٨،سعید)

"وبشرط نیۃ الحج عنہ ای عن الآمر فیقول احرمت عن فلان ولبیک عن فلان".( الدر مع التنویر، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر۲/۵۹۸،سعید)

"فإن لم یبین مکانا یحج عنہ من وطنہ عند علمائنا، وہذا إذا کان ثلث مالہ یکفی للحج من وطنہ فأما إذا کان لا یکفی لذلک فإنہ یحج عنہ من حیث یمکن الإحجاج عنہ بثلث مالہ۔۔۔۔۔۔وإن أوصی أن یحج عنہ من موضع، کذا من غیر بلدہ؛ یحج عنہ من ثلث مالہ من ذلک الموضع الذی بین قرب من مکۃ أو بعد عنہا".(الھندیۃ، کتاب المناسک، الوصیۃ بالحج ١/٢٥٩،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی