کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے پچھلے دس بارہ سال (USA) میں ہوگئے ہیں، لیکن اب پچھلے دو سال سے کووڈ کے بعد سے ”Job” کی وجہ سے بہت پریشان ہوں اور آج کل میرا کوئی کام نہیں ہے، ہاں ایک ”Job” کی آفر پچھلے دو تین بار آچکی ہے، مگر اس ”Job” سے میں منع کرچکا ہوں کیوں کہ میرا دل مطمئن نہیں ہورہا ہے۔
در اصل مجھے گیس فیول اسٹیشن کا ٹھیکہ مل رہا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فیول اسٹیشن میں جو سپر اسٹور ہوتا ہے اس میں مختلف چیزوں کے ساتھ ”Bear” کی بوتلیں بھی سیل ہوتی ہیں، اس میں ”Bear” کمپنی کا کنٹریکٹ بھی ہوتا ہے اس کے بغیر یہ مل بھی نہیں سکتی،مجھے آپ سے ا س مسئلے کا پوچھنا ہے کہ کیا یہ کام میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ کیوں کہ میں نے یہاں کے مفتی حضرات سے معلوم کیا تو انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ اگر ”بیئر” کی سیل سے زیادہ دوسری چیزوں کی سیل ہے ،تو آپ یہ کام کرسکتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ آپ جلد از جلد اس مسئلے کا حل بتائیں اور میری رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں گیس فیول اسٹیشن کا ٹھیکہ سپر اسٹور کے لینے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، اور چوں کہ اسٹور میں باقی چیزوں کے ساتھ بیئر (شراب) کی بوتلیں بھی بیچی جاتی ہیں اور شراب میں ہر قسم کی معاونت شرعا ناجائز ہے، لہذا ایسے کام سے اجتناب کیا جائے اور جائز روزگار کی تلاش کریں۔لمافي سنن أبي داود:
’’حدثنا عثمان بن أبي شیبۃ ،قال ثنا وکیع بن الجراح ،عن عبد العزیز بن عمر، عن أبي علقمۃ مولاھم وعبد الرحمن بن عبد اللہ الغافقي أنھما سمعا ابن عمر یقول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:« لعن اللہ الخمر وشاربھا وساقیھا وبایعھا ومبتاعھا وعاصرھا ومعتصرھا وحاملھا والمحولۃ إلیہ»‘‘.(کتاب الأشربۃ، باب تحریم الخمر: ٢/ ١٦١: ایچ ایم سعید)
وفي تبیین الحقائق:
’’قال رحمہ اللہ: (لم یجز بیع المیتۃ والدم والخنزیر والخمر والحر وأم الولد والمدبر والمکاتب) لعدم رکن البیع وھو مبادلۃ المال بالمال وبیع ھذہ الأشیاء باطل لما ذکرنا‘‘.(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد: ٤/ ٣٦٢: دار الکتب العلمیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’إذا استأجر رجلا لیحمل لہ خمرا، فلہ الأجر في قول أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی وقال أبو یوسف ومحمد - رحمھما اللہ تعالی - لا أجر لہ وإذا استأجر ذمي مسلما لیحمل لہ خمرا ولا یقل لیشرب جازت لہ الإجارۃ في قول أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی خلافا لھما‘‘.(کتاب الإجارۃ: ٤/ ٤٨٦: دار الفکر).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/241