کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض دفعہ شہر میں کوئی فوت ہوجاتا ہے، تو وہاں کا مقیم ولی نماز جنازہ پڑھ لیتا ہے، پھر میت کو گاؤں منتقل کرکے گاؤں میں رہنے والی دوسری مرتبہ نماز جنازہ پڑھتےہیں، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
نماز جنازہ میں تکرار جائز نہیں، اگر ایک ولی غائب ہو، تو اس کا حق ساقط ہوجاتا ہے، لہذا غائب ولی اس کا اعادہ نہیں کرسکتا۔لما في البدائع:
’’ولا یصلی علی میت إلا مرۃ واحدۃ، لا جماعۃ ولا وحدانا عندنا، إلا أن یکون الذین صلوا علیھا أجاب بغیر أمر الأولیاء، ثم حضر الولي فحینئذ لہ أن یعیدھا، وقال الشافعي رحمہ اللہ تعالی: یجوز لمن لم یصل أن یصلي، واحتاج بما روي أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم صلی علی النجاشي...... ولنا ما روي أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم صلی علی جنازۃ فلما فرغ جاء عمر ومعہ قوم فأراد...... أیصلي ثانیا، فقال لہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی الجنازۃ لا تعاد، ولکن ادع للمیت واستغفر لہ، وھذا نص في الباب.......والدلیل علیہ أن الأمۃ توارثت ترک الصلاۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی الخلفاء الراشدین والصحابۃ رضي اللہ عنھم، ولو جاز لما ترک مسلم الصلاۃ، وترکھم ذلک إجماعا منھم دلیل علی عدم جواز التکرار علیھم خصوصا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؛ لأنہ في قبرہ کما وضع، فإن لحوم الأنبیاء حرام علی الأرض، بہ ورد الأثر‘‘.(کتاب الصلاۃ، فصل في بیان من یصلی علیہ: ٢/ ٣٣٦:دار الکتب العلمیۃ)
وفي التاتارخانیۃ:
’’وفي (جامع الجوامع): مات في غیر بلدہ فصلی علیہ بإذن السلطان أو القاضي، ثم جاء أھلہ وحملوہ إلی منزلہ لا یعاد‘‘.(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز: ٢/ ١٢٤:قدیمي).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/112