کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ۱۔ تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
۲۔ تعزیت کے لیے جا کر میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور وہاں جا کر سب کا ہر شخص کے آنے پر اجتماع طور پر ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا کیسا ہے؟ آیا تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے؟
۳۔ ہمارے علاقے میں کسی کے انتقال پر ان کے قبیلہ کے دور کے رشتہ دار اہل میت اور اس کے قریبی رشتہ داروں کی تین دن بلکہ اس سے بھی زیادہ دن تک دعوت کرتے ہیں، اور اس دعوت میں پھر دوسرے لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں آیا ایسا کرنا جائز ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلی دلائل کے ساتھ تحقیقی جواب دے کر عند اللہ مأجور ہوں۔
۱۔ میت کے متعلقین کو جا کر تسلی دینا، ان کی دلجوئی کرنا، صبر کی تلقین وترغیب دینا، اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا شرعاً مسنون ہے، اور اسی کو تعزیت کہتے ہیں، تین دن میں ایک بار تعزیت کرنا مستحب ہے، جو ایک بار تعزیت کر آئے دوبارہ اسے تعزیت کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا میت کے لواحقین اس علاقہ میں موجود نہ ہوں، یا کسی دوسرے عذر کی وجہ سے تین دن میں تعزیت نہ کرسکا تو اس کے بعد بھی تعزیت کرنا جائز ہے، مجبوری یا دوری کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے تو خط وغیرہ کے ذریعہ بھی تعزیت کر سکتا ہے، تعزیت کے لیے دعوت، اجتماع اور دیگر رسوم کی پابندی کے بغیر تنہاء جائے، تعزیت کے لیے متعین الفاظ نہیں، بلکہ جو الفاظ بھی زیادہ موٴثر اور مناسب ہوں انہیں کہہ سکتا ہے، تعزیت کے یہ الفاظ حدیث سے ثابت ہیں: (أعظم اللہ أجرک، وأحسن عزاء ک، وغفر لمیتک) ”اللہ تمہیں اجر عظیم عطا فرمائے، صبر کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے، اور آپ کی میت کو بخش دے“۔
۲۔ تعزیت کے وقت میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا مسنون ہے، اور یہ در حقیقت اہل میت کی دلجوئی ہی کا ایک قصہ ہے، جیسا کہ تعزیت کے الفاظ مأثورہ سے معلوم ہوتا ہے، لہٰذا اس میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں، لیکن لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا، اور ہر ایک کے آنے پر بار بار سب کا دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا، یا بغیر اجتماع کے میت کے لواحقین کے پاس جا کر وہاں موجود سب افراد کا اجتماعی دعا کرنا، اور اسے لازمی سمجھنا، پھر اجتماعی دعا نہ کرنے والے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا نا جائز اور بدعت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین کے معمول کے خلاف ہے، اہل میت کا تعزیت کے لیے تین دن تک مناسب جگہ بیٹھنا جائز ہے، اگرچہ اس کا ترک اولی ہے، لیکن دعا کے لیے اجتماع وجلوس اور اس کو لازمی سمجھنا بدعت ہے، البتہ اگر کسی مجلس میں کسی کی وفات کی اطلاع پر یا اہل میت کی طرف سے دعا کی فرمائش پر کچھ ایصال ثواب کر کے ایک بار ہاتھ اٹھا کر اجتماعی یا انفرادی دعا کرلی جائے تو جائز ہے۔
۳۔ اہل میت کا پہلے دن چوں کہ غم اور پریشانی کی وجہ سے اپنے لیے کھانا تیار کرنا انتہائی گراں ہوتا ہے، لہٰذا اہل میت کے پڑوسیوں اور دور کے رشتہ داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس دن دو وقت کا کھانا ان کے لیے تیار کرلیں، اگر وہ غم کی وجہ سے نہ کھائیں تو اصرار کر کے انہیں کھلائیں، اہل میت کے وہ عزیز واقارب جو دور سے آئے ہوں، اور اسی دن ان کی واپسی ممکن نہ ہو، یا ان کا قیام اہل میت کی تسلی کے لیے ضروری ہو، یا جو لوگ میت کی تجہیز وتکفین اور دفن کے کاموں میں مصروف ہوں، ان کے لیے بھی یہ کھانا کھانا درست ہے، باقی لوگوں کو تعزیت کے بعد اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، نہ وہ میت کے گھر قیام کریں، اور نہ ان کی ضیافت کی جائے، کیوں کہ دعوت کرنا خوشی کے موقع میں مشروع ہے نہ کہ غمی کے ایام میں، لہٰذا کئی کئی دنوں تک اہل میت اور اس کے قریبی رشتہ داروں کی دعوتیں کرنا، اور اس میں پر تکلف کھانوں کا اہتمام کرنا، اور اسے ضروری سمجھنا اور نہ کرنے والوں کو طعن کا نشانہ بنانا سب نا جائز اور بدعت ہے۔
"قال العلائي: ولا بأس بنقله قبل دفنه ...وبتعزية أهله، وترغيبهم في الصبر، وباتخاذ طعام لهم، وبالجلوس لها في غير مسجد ثلاثة أيام، وأولها أفضلها وتكره بعدها إلا لغائب، وتكره التعزية ثانيًا».
وفي الرد:قوله: (وبتعزية أهله) أي: تصبرهم والدعاء لهم به ...... قال في «شرح المنية»: «وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن .... والتعزية أن يقول: أعظم الله أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك اهـ.(رد المحتار،كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة: 3/173-177، رشيدية)
عن أبي خالد يعني: الوالبي: أن النبي صلي الله عليه وسلم عزى رجلًا، فقال: يرحمك الله ويأجرك.(السنن الكبرى للبيهقي، كتاب الجنائز: 4/99، دار الكتب العلمية، بيروت)
عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردٌّ.(صحيح البخاري، كتاب الصلح، رقم الحديث: 2697، دار السلام، رياض)
قال الطيبي:وفيه أن من أصرّ على مندوب، وجعله عزمًا، ولم يعمل بالرخصة، قد أصاب منه الشيطان من الإضلال، فكيف من أصرّ على بدعة أو منكر؟.(مرقاة المفاتيح ملا علي القاري: 3/31، رشيدية)
قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم، يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله - صلي الله عليه وسلم -: اصنعوا الآل جعفر طعامًا فقد جاءهم ما يشغلهم حسّنه الترمذي، وصححه الحاكم، ولأنه برّ ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون اهـ(رد المحتار، الصلاة، باب صلاة الجنازة، في الثواب على المصيبة: 3/175، رشيدية)
ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت طعام كذا في التبيين ولا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة أيام، كذا في التتارخانية.(الهندية، الفصل السادس في القبر والدفن، ومما يتصل بذلك مسائل التعزية: 1/167، رشيدية)
ولا بأس بأن يكون حمل الطعام إلى أهل المصيبة، وهو في اليوم الأول غير مكروه، لشغلهم بجهاز الميت، وفي اليوم الثاني مكروه إذا اجتمعت النياحة؛ لأنه إعانة لهم على الإثم والعدوان .... ويكره اتخاذ الضيافة في أيام المصيبة؛ لأنها أيام تأسف فلا يليق بها ما يكون للسرور.(الخانية هامش الهندية، كتاب الحظر والإباحة: 3/405، رشيدية)
ولا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة أيام؛ لأن الضيافة يتخذ عند السرور.(خلاصة الفتاوى، كتاب الكراهية، نوع منه: 4/342، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 77/54