آج کل جو تدفین کے بعد میت کے گھر جا کر اجتماعی تعزیت کرتے ہیں، وہاں کھانا کھانے کا اہتمام کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
میت کے متعلقین کو جا کر تسلی دینا، ان کی دلجوئی کرنا، صبر کی تلقین وترغیب دینا، اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا شرعاً مسنون ہے، محض رواجِ دینوی نہیں ہے، اسی کو تعزیت کہتے ہیں، تعزیت کے لیے دعوت، اجتماع اور دیگر رسوم کی پابندی کے بغیر تنہا جائے ۔
تعزیت کے وقت میت کے لیے دعا کرنا درحقیقت اہلِ میت کی دلجوئی ہی کا ایک حصہ ہے،لہٰذا اس میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں،ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں۔
لیکن لوگوں کا خاص دعا کے لیے ایک جگہ جمع ہونا،اور ہر ایک کے آنے پر بار بار سب افراد کا اجتماعی دعا کرنا،اور اسے لازمی سمجھنا،پھر اجتماعی دعا نہ کرنے والے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا نا جائز اور بدعت ہے۔
۲۔ میت کے گھر کھانا کھانا:
عمومی طور پر سب لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا، اور کھانا کھانے اور کھلانے کے لیے اہلِ میت کے گھر جمع ہونا نا جائز اور بدعت ہے، اور اگر یہ کھانا اہل میت کی طرف سے ہو تو یہ اور زیادہ قبیح ہے، اور انتہائی بے غیرتی کی بات ہے کہ اہل میت کے لیے کچھ کرنے کے بجائے ان کے غم میں مزید اضافہ کیا جائے، اور ان کے ہاں دعوتیں اڑائی جائیں، جب کہ اس نا جائز رسم میں یتیموں اور نا بالغوں کا حق بھی بے جا تلف ہوتا ہے۔
"وفي الإمداد: «وقال كثير من متأخري أئمتنا: يكره الاجتماع عند صاحب البيت، ويكره له الجلوس في بيته حتى يأتي إليه من يعزي، بل إذا فرغ ورجع الناس من الدفن فليتفرقوا، ويشتغل الناس بأمورهم، وصاحب البيت بأمره اھ(رد المحتار، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة: 3/176، رشيدية)
"ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت طعام، كذا في «التبيين» ولا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة أيام، كذا في التتارخانية.(الهندية، الفصل السادس في القبر والدفن: 1/167، رشيدية)
"قال الطيبي: «وفيه أن من أصرّ على مندوب، وجعله عزمًا، ولم يعمل بالرخصة، فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصرّ على بدعةٍ أو منكرٍ؟.(مرقاة المفاتيح لملا علي القاري: 3/31، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 77/300