کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص صاحب نصاب ہے اور وہ حج پر جانے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ حج پر نہیں جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ حج پر تبلیغ مقدم ہے ،تو اب ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے ؟کیا ایسا کرنےسے وہ گناہگار ہوگا۔
حج جب فرض ہوجائے، توپھر تبلیغی جماعت میں جانے کو مقدم کرنا درست نہیں ہے، بلکہ جلد از جلد اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے اور زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہوتا ہے، لہٰذا بلا عذر شرعی کے اس میں تاخیر جائز نہیں ہے۔لما في حاشیۃ ابن عابدین:
’’وأن آیۃ فرضہ ھي قولہ تعالیٰ:«وللہ علی الناس حج البیت»‘‘.(کتاب الحج:517/3، رشیدیۃ)
وفیہ أیضاً:
’’قولہ: (ووجھہ إلخ) أي: وجہ کون التأخیر صغیرۃ أن الفوریۃ واجبۃ؛ لأنھا ظنیۃ دلیلھا وھو الاحتیاط؛ لأن في تاخیرہ تعریضا لہ للفوات، وھو غیر قطعي فیکون التأخیر مکروھا تحریما لاحراما؛ لأن الحرمۃ لاتثبت إلا بقطعي کمقابلھا، وھو الفریضۃ لما ذکرہ مبني علی ما قالہ صاحب البحر في رسالتہ المؤلف في بیان المعاصي أن کل ما کرہ عندنا تحریما فھو من الصغائر، لکنہ عدفیھا من الصغائر ما ھو ثابت بقطعی کوطء المظاھر منھا قبل التکفیر والبیع عند أذان الجمعۃ‘‘. (کتاب الحج:520/3، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/ 184