كىا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ:
میں نے ایک عالم سے سنا وہ فرمارہے تھے کہ آدمی اپنے والدین کو بینک کی تنخواہ سے حج کراسکتا ہے۔ البتہ بینک کی نوکری کے علاوہ کوئی دوسری نوکری بھی تلاش کرتا رہے۔ جب دوسری نوکری مل جائے تو پھر بینک کی نوکری چھوڑ دے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا بینک کی نوکری سے والدین کو حج کرانا درست ہے؟
بینك كى نوكرى كى تنخواه سے حج ادا كرنے سے حج ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، لىكن قبول نہیں ہوگا، یعنی حج کا ثواب نہیں ملے گا، نیز والدین کو حج کرانے سے حج کا فرض والدین کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔لما في البحر:
”ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع أنه يسقط الفرض عنه معها وإن كانت مغصوبه ولا تنافي بين سقوطه وعدم قبول فلا چاب لعدم القبول، ولا يعاقب في الأخرة عقاب تارك“. (كتاب الحج: ۵۴۱/۲،رشيدية)
وفي رد المحتار:
’’قد يقال: إن الحج نفسه الذى هو زيارة مكان مخصوص الخ ليس حرامًا، بل الحرام هو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بينهما.... إلخ وكأنه أطلق عليه الحرمة لأن للمال دخلا فيه، فإن الحج عبادة مركبة من عمل البدن والمال كما قدمناه“.(كتاب الحج، مطلب: فيمن حج بمال حرام: ۵۱۹/۳،رشيدية)
وفي الهندية:
”ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، فإنه لا يقبل الحج بالنفقة الحرام مع أنه يسقط الفرض معها وإن كانت مغصوبة‘‘.(كتاب الحج: ۴۸۸/۱،رشيدية)
وفي رد المحتار:
”قوله:(بعبادة ما) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك‘‘.(كتاب الحج، مطلب في إهداء ثواب الأعمال للغير: ۱۲/۴،رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:171/9
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی