: کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ چار افراد نے ملک کر ایک ہوٹل خریدنا چاہا اور خود ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ ہوٹل خرید سکیں، تو چاروں نے مالک ہوٹل سے پے منٹ لینے پر طے کیا، پے منٹ اس طرح کہ مالک ہوٹل نے ان کے سامنے شو روم سے ایک نئی موٹر سائیکل اپنے لیے پچاس ہزار روپیہ میں خریدی ،پھر اسی موٹر سائیکل کو اسی وقت ان چاروں شرکاء پراسی ہزار روپے قرضاً بیچی، پھر اسی وقت ان چار شرکاء نے اسی موٹر سائیکل کو مالک ہوٹل پر دوبارہ پچاس ہزار روپے میں بیچ دیا،اب ہوٹل کے مالک کا ان شرکاء پر تیس ہزار روپے بھی قرض ہوا اور موٹر سائیکل بھی واپس مالک کی ہوگئی اور ہوٹل کے مالک نے شرکاء کو موٹر سائیکل کے دوبارہ خریدنے کے جو پچاس ہزار روپیہ دینا تھے،وہ اس طرح کیاکہ ہوٹل کے مالک کو گیارہ مہینے کے ایگریمنٹ پر ایک لاکھ ایڈوانس اور بارہ ہزار ماہانہ کرائے پر شرکاء پر بیچ دیا تو شرکاء کے پچاس ہزار روپے ہوگئے تو مالک کا شرکاء پر اب تیس ہزار پے منٹ اور پچاس ہزار ایڈوانس کے باقی رہ گئے اور ہوٹل چار شرکاء کے حوالے ہوا، اب شرکاء نے ہوٹل چلا کر مالک کو تیس ہزار پے منٹ اور پچاس ہزار قسط وار بھی دینا ہوگا اور ماہانہ بارہ ہزار کرایہ بھی دینا ہوگا،تو گویا پے منٹ کا ان کو یہ فائدہ ہوا کہ پچاس ہزار ایڈوانس کے ادا ہوئے اور ہوٹل ہاتھ آیا۔
اب دونوں طرف سے بیع طے ہونے کے بعد ہوٹل جب چار شرکاء کے حوالے ہوا تو ہوٹل کو چارج میں لینے سے پہلے یا فوراً بعد ان چار شرکاء میں سے ایک شریک پشیمان ہوا اور بیع فسخ کرنا چاہتاہے یا تواس وجہ سے کہ ایڈوانس اور کرایہ ادا نہیں کرسکتے یا حرام ہونے کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے، بہرحال وہ کہتا ہے کہ میں سودا نہیں کرنا چاہتا ہوں اور صاف صاف انکار کرتا ہوں اور آپ تینوں بھی یہ بیع فسخ کرلو اور صرف تیس ہزار روپیہ جو موٹر سائیکل کی پے منٹ کے رہ جاتے ہیں وہ سب مل کر دیں گے باقی نہیں، اور اس ایک شریک کے انکار کو باقی تین ساتھیوں نے قبول نہیں کیا اور وہ بیع فسخ کرنے پر راضی نہیں ہیں، اور بقیہ تین ساتھیوں نے ہوٹل کچھ دنوں چلایا بھی ہے، اب یہ تین شریک کہتے ہیں کہ اگر ہم ہوٹل واپس مالک کے حوالے کریں اور بیع فسخ کریں تو مالک ہم پر تاوان رکھے گا کیوں کہ بار با رہوٹل بیچنے سے ہوٹل بدنام ہوتا ہے،پہلے تو مالک لے گا ہی نہیں، اگر ہوٹل لے بھی تو اس بدنامی کے عوض ہم پر ضرور کوئی تاوان رکھے گا اور اس تاوان میں آپ بھی ہمارے ساتھ برابر شریک ہوں گے اور یہ منکر شریک کہتا ہے کہ میں نے تو ہوٹل چارج میں لینے سے پہلے انکار کردیاتھا، لہٰذا میں تاوان نہیں دوں گا، صرف موٹر سائیکل کی تیس ہزار روپے کی پے منٹ کی ادائیگی میں آپ کے ساتھ برابرکا شریک ہوں،اب یہ شریک کسی نہ کسی طریقے سے اس سودے سے جان چھڑانا چاہتا ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ:
۱۔ قرآن اور حدیث اور فقہ حنفی کی روشنی میں اس طرح بیع اور سودا جائز ہے یا نہیں؟ اور کیایہ سود ہے یا نہیں؟
۲۔ایسی بیوعات کا فوراً فسخ کرناضروری ہے یا نہیں؟
۳۔فسخ کی صورت میں ہوٹل کا مالک ہوٹل کی بدنامی کا کوئی تاوان شرعاً رکھ سکتا ہے یا نہیں؟
۴۔ اگر فسخ کی صورت میں مالک کوئی تاوان رکھے تو کیا تاوان اس منکر شریک پر بھی آئے گا یا نہیں؟مطلب پوچھنے کا یہ ہے کہ اب یہ منکر شریک کسی نہ کسی طریقے سے اس سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور صرف موٹر سائیکل کے تیس ہزارروپے تاوان دینے پر خود بھی راضی ہے تو یہ شریک کس طرح اس معاملے سے جان بچاسکتا ہے اور کیا اس پر کوئی تاوان آئے گا یا نہیں؟
۱۔واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں کسی چیز کو بیچ کر قیمت وصول کرنے سے قبل اسی خریدار سے کم قیمت پر دوبارہ خریدنا ناجائز ہے اور
اسے اصطلاحِ فقہ میں ”شراء ماباع باقل مما باع” کہا جاتا ہے۔”شراء ما باع بأقل مما باع” کے ناجائز ہونے کی دلیل حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:چند عورتیں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس ان کے گھرگئیں،گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک عورت(غالباً عالیہ نامی یا حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ تعالی عنہ کی ام ولد تھی)نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیاکہ میں نے ایک باندی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ پر سرکاری تنخواہ وصول کرنے تک آٹھ سو درہم میں فروخت کی، پھر قیمت وصول کرنے سے پہلے چھ سو درھم میں ان سے دوبارہ خریدی، سو اس بیع کا کیا حکم ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:بہت برا کیاآپ نے جو خریدا، اوربہت برا کیا اس نے جو خریدا(یعنی آپ کو اس طرح کی خریدوفروخت نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اس میں ربا لازم آتا ہے) اور حضرت زید رضی اللہ عنہا کو بتادینا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے حج اور رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کو باطل قرار دے دیا إلا یہ کہ آپ توبہ و استغفار کریں۔
صورتِ مسؤلہ میں بھی ”پے منٹ” کی بعینہ یہی صورت ہے کہ ہوٹل کے مالک نے موٹر سائیکل دکان سے پچاس ہزار کی خرید کر، ادھار میں ہوٹل کے خریداروں پر اسی ہزار روپے80,000))میں فروخت کی او رپھر قیمت وصول کرنے سے پہلے پہلے دوبارہ اصلی قیمت(یعنی پچاس ہزار روپے) میں ان سے خرید لی، اس لیے یہ صورت ”شراء ماباع بأقل مماباع” میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور اس کے بعد ہوٹل کی جو خریدوفروخت ہوئی ہے وہ بھی ناجائز ہے۔
۲۔ خریدوفروخت میں جب کوئی صورت ناجائز ہوجائے تو بیچنے او رخریدنے والے دونوں پرلازم ہے کہ ایسی بیع کو فسخ کریں، لہٰذا مذکورہ صورت میں ہوٹل کے مالک اور خریداروں پر اس کا فسخ کرنا لازم ہے۔
۳،۴باقی معاملہ کے ختم کرنے کے بعد ہوٹل کے مالک کا، ہوٹل کے بدنام ہونے کے بدلے میں تاوان اور ضمان لینا ناجائز ہے،
''لأن تغییر السعر لایتعلق مع الأحکام کما في الغصب فعاد إلیہ المبیع کما خرج من ملکہ''.
''ومن اشتری جاریۃ بألف درہم حالۃ أو نسیئۃ فقبضہا ثم باعہا من البائع بخمسمائۃ قبل أن ینقد الثمن الأول لا یجوز البیع الثانی۔۔۔ولنا قول عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: لتلک المرأۃ وقد باعت بستمائۃ بعدما اشترت بثمان مائۃ: بئسما شریت واشتریت، أبلغي زید بن أرقم أن اللّٰہ تعالی أبطل حجہ وجہادہ مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن لم یتب؛ ولأن الثمن لم یدخل في ضمانہ، فإذا وصل إلیہ المبیع ووقعت المقاصۃ بقي لہ فضل خمس مائۃ وذلک بلا عوض، بخلاف ما إذا باع بالعرض؛ لأن الفضل إنما یظہر عند المجانسۃ''. (الھدایۃ، کتاب البیوع: ٣/٥٧، ٥٨، شرکۃ علمیۃ)
''قال: ''ولکل واحد من المتعاقدین فسخہ رفعا للفساد، وہذا قبل القبض ظاہر؛ لأنہ لم یفد حکمہ فیکون الفسخ امتناعا منہ، وکذا بعد القبض إذا کان الفساد في صلب العقد لقوتہ''. (الھدیۃ، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، فصل في أحکامہ: ٣/٦٤، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی