کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بیع عینہ میں نیت کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟ اگرمشتری بیع کررہا ہے، تو اس کا مقصود دیکھا جائے گا کہ اس کا مقصد کیا ہے؟ اگر اس کا مقصد بیع کرنا ہو، تو پھر تو جائز ہوگا، لیکن اگر اس کامقصود بیع نہیں ہے، توپھر جائز نہیں، چاہے واپس بائع پر اس شے کو بیچے یا کسی دوسرے پر۔
ازراہ کرم مذکورہ بات کا اگر صریح حوالہ ہو، تو اس کی طرف بندہ کی رہنمائی فرمائیں۔
بیع عینہ میں مشتری(خریدنے والا) کا مقصد قرضہ لینا ہی ہوتا ہے، مگر بائع(بیچنے والا) نفع کے لیے بیع عینہ کا حیلہ اختیار کرتا ہے، جس صورت میں مبیع(شے/چیز) بائع اول کے پاس لوٹ آتی ہے، وہ صورت مکروہ تحریمی ہے، اور جس صورت میں مبیع تیسرے شخص کے پاس جاتی ہے، وہ صورت خلاف اولیٰ ہے، اس سے بہتر قرضہ دینا ہے۔لما في رد المحتار:
’’بیع العین بالربح نسیئۃ لیبیعھا المستقرض بأقل؛ لیقضي دینہ، اخترعہ أکلۃ الربا، وھو مکروہ مذموم شرعا؛ لما فیہ من الإعراض عن مبرۃ الإقراض...... قال في الفتح ما حاصلہ: إن فعلت صورۃٌ یعود فیھا إلی البائع جمیع ما أخرجہ أو بعضہ.... فیکرہ یعني تحریما، فإن لم یعد کما إذا باعہ المدیون في السوق فلا کراھۃ فیہ بل خلاف الأولیٰ‘‘. (کتاب الکفالۃ: مطلب بیع العینۃ:655/7، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/135