کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کیا باہر ملک سے کپڑا اسمگلنگ کرسکتے ہیں؟ جس میں عبایا کا کپڑا، لیڈیز سوٹ، پینٹ کوٹ کا کپڑا وغیرہ؟
باہر ملک سے مال لے کر آنا یا باہر ممالک لے کر جانا شرعی اعتبار سے اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ جائز اور حلال مال ہو، لیکن اس پر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے، اس پابندی کی خلاف ورزی میں بہت سے گناہوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے، مثلا: اکثر جھوٹ بولنا پڑتا ہے، رشوت دینی پڑتی ہے، جان مال اور عزت وآبرو کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے، جن کی حفاظت کا شریعت میں بڑا خیال رکھا گیا ہے، اور بسا اوقات جسمانی تکلیف اور قید وبند کی صعوبت برداشت کرنی پڑتی ہے، اس لیے حکومت کے قانون کی پابندی کرنی چاہیے، اور ایسے کاروبار سے اجتناب کرنا چاہیے، تاہم اسمگل ہوکر آنے والی حلال ومباح چیزوں کی خرید وفروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے۔لما في التنزیل:
«وأحل اللہ البیع وحرم الربا».(سورۃ البقرۃ:275)
لما في الدر مع الرد:
’’والحاصل: أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع‘‘.(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد:69/5:سعید)
وفي الدر:
’’لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بعصیۃ فرض، فکیف فیما ھو طاعۃ‘‘.(کتاب الجھاد، باب البغاۃ:404/6:رشیدیۃ)
(وکذا في بدائع الصنائع: کتاب السیر، بیان أحکام البغاۃ:127/6:رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/65