کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ زمین کا مالک ہے اور وہ اس زمین کو بینک کے کسی کام کے لیے یا کسی بینک کے بنانے کے لیے کرایہ پر دیتا ہے ،یہ زمین بینک کو کرائے پر دینا جائز ہے یا نہیں ؟ اس سے حاصل ہونے والا کرایہ اس شخص کے لیے حلال ہے یا حرام ہے ؟
واضح رہے کہ بینک بنانے کے لیے زمین اجرت پر دینا جائز نہیں ہے ،اور یہ کرایہ چونکہ سود کی رقم سے دیا جاتا ہے جوکہ حرام ہے .اور تعاون علی المعصیہ کے زمرے میں آتا ہے .
لما في القرآن المجید
﴿وتعاونو ا علی البر والتقویٰ ولا تعاونو ا علی الاثم والعدوان﴾. (سورۃ المائدۃ، الآية: ۲)
وفي بذل المجهود:
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: لعن رسول الله ﷺ آکل الربا وموكله وشاهدہ وکاتبه أي الذي یکتب الشهادة. قال النووی: فیه تصریح بتحریم کتابة المبایعة بین المترابین باجر کان أو بغیر أجر والشهادة علیها. وتحریم الإعانة علی الباطل . (کتاب البیوع، باب في آکل الربا: 11/18، دار البشائر الإسلامية)
وفي التاتارخانية:
ولو اتخذ فیها بيعة أو کنیسة أو بیت نار یمکن من ذلك في السود. قال شیخ الإسلام: أراد بهذا اذا کان استأجرها الذمي لیسکنها ثم أراد بعد ذلك أن يتخذها كنيسة أو بيعة فيها فأما إذا استاجرها في الابتداء ليتخذها بيعة أو كنيسة لا یجوز ألا تری إلی ما ذکر قبل هذا لأن الذمي إذا استاجر من للسلم بيعة لیصلي فيها لم یجز. (کتاب الإجارة، فصل الاستنجار علی المعاصي: 15/133، فاروقيه كوئته)
وفي الفتاوى البزازية:
من عليه الدین باع خمرا وأراد أن يقضي به الدین لا یحل لرب الدین أخذه إن کانا مسلمین. (کتاب الإجارة، الفصل العاشر في المحظر والإباحة: 2/64، دار الفكر بيروت).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 154/162