بلٹی کی خرید وفروخت کا حکم

بلٹی کی خرید وفروخت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ گڈز ٹرانسپورٹ اڈے والے جب ایک شہر سے دوسرے شہر ٹرک والوں کے ذریعے سامان بھیجتے ہیں، چوں کہ ٹرک والوں کو فی الفور کرایہ وصول نہیں ہو پاتا تو اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ گڈز ٹرانسپورٹ والا (جہاں سے مال اٹھایا گیا ہے ) بلٹی میں مقرر کرائے سے زیادہ لکھتا ہے، مثلاً:اصل کرایہ دس ہزار روپے ہے تو بلٹی گیارہ ہزار کی بنائی جاتی ہے، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب ٹرک ڈرائیور مال پہنچا دیتا ہے تو چوں کہ فی الحال کمپنی کی طرف سے کرایہ نہیں ملتا ہے، اس لیے وہ بروکر کے پاس جاتا ہے اور یہ بلٹی اسے دیتا ہے تو بروکر اس میں اپنی کٹوتی کرکے بقیہ رقم ٹرک ڈرائیورکو دے دیتا ہے، مثلاً:بلٹی میں کرایہ گیارہ ہزار روپے لکھا ہوا ہو تو وہ ہزار یا پانچ سو کٹوتی کرکے رقم اس کو دے دیتا ہے او رپھر مقررہ تاریخ کو جس کا مال ہے ،اس کے پاس جاتا ہے اور بلٹی میں درج پوری رقم گیارہ ہزار روپے وصول کرتا ہے تو اسے ہزار پانچ سو روپے نفع ملتا ہے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ بروکر حضرات کا یہ کاروبار شرعاً درست ہے یا نہیں؟ او رجو نفع اس کو ملتا ہے یہ منافع ہے یا سود ہے؟ اس میں بروکر کا نقصان نہیں ہوتا، کیوں کہ اس کو زیادہ رقم ملتی ہے او رٹرک ڈرائیور کا بھی نقصان نہیں ہوتا اس لیے کہ کمپنی کی طرف سے پہلے سے کرایہ بلٹی میں زیادہ لکھا جاتا ہے۔

جواب

سوال میں دو الگ الگ معاملے ہیں:

۱۔ٹرک والے کا اڈے والے سے۔ ۲۔ ٹرک والے کا بروکر سے۔

جہاں تک پہلے معاملے کا تعلق ہے، اس میں اڈے والے او رٹرک والے کے درمیان جتنے روپے پر ابتدا میں معاملہ طے ہوا ہے ،اتنے روپے لینا جائز ہے، اس سے سے زائد لینا نا جائز اور حرام ہے، کیوں کہ دھوکا دے کر کم پیسوں کو زیادہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔۔۔ البتہ اس کی درست صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ابتداء میں آئندہ آنے والی مشکلات کو مدِنظر رکھ کر زیادہ رقم پر معاملہ کیا جائے، مثلاً: بجائے دس ہزار کے گیارہ ہزار روپے پر معاملہ کیا جائے تاکہ ناجائز اور حرام کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔

جہاں تک دوسرے معاملے کا تعلق ہے ،یہ بیع الدین من غیر من علیہ الدین ہے ( یعنی قرض کو ایسے آدمی پر فروخت کرنا جس پر قرض نہیں) جو کہ ناجائز ہے اور دوسری خرابی میں پیسوں کی کمی وبیشی سے معاملہ کیا جارہا ہے جو کہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

اس کے جائز ہونے کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ٹرک ڈرائیور بروکر کو کرایہ وصول کرنے کا وکیل بنا دے اور اجرت میں ہزار یا پانچ سو،یا جو بھی متعین ہو اس کو دے دے، اور پھر بلٹی یا بل کی رقم کے برابر بروکر سے قرض لے کر اسے کہہ دے کہ میرا قرض (بلٹی کی رقم)وصول کرکے اپنے قرض کے عوض میں رکھ لو۔

اس صورت میں بروکر کا منافع اس کی اجرت ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حلال او رجائز ہو گا۔ تاہم اس صورت میں وکیل (بروکر)کو قرض (بلٹی کی رقم)وصول نہ ہو سکی تو مؤکل(ٹرک ڈرائیور)سے رجوع کرسکتا ہے۔

''عن النبي- صلی اﷲ علیہ وسلم- قال: البیعان بالخیار مالم یتفرقا،فإن صدقا وبینا بورک لھما في بیعھما،وإن کذبا وکتما محقت برکۃ بیعھما''.(صحیح مسلم،کتاب البیوع، باب الصدق في البیع والبیان:٢/٧، قدیمی)

''لا یحل کتمان العیب في مبیع أو ثمن ؛ لأن الغش حرام''. (الدر المختار، کتاب البیوع، باب خیار العیب: ٥/٤٧، سعید)

''وأفتی المصنف ببطلان بیع الجامکیۃ لما في الأشباہ ، بیع الدین إنما یجوز من المدیون، وفي الشامیۃ: سئل عن بیع الجامکیۃ: وھو أن یکون لرجل جامکیۃ في بیت المال ویحتاج إلی دراھم معجلۃ قبل أن تخرج الجامکیۃ، فیقول لہ رجل:بعتني جامکیتک التي قدرھا کذا بکذا أنقص من حقہ في الجامکیۃ فیقول لہ:بعتک فھل البیع المذکور صحیح أم لا؟ لکونہ بیع الدین بالنقد، أجاب إذا باع الدین من غیر من ھو علیہ کما ذکر لا یصح''.(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، مطلب في بیع الجامکیۃ: ٤/٥١٧، سعید)

''فالصحیح في زماننا أن مبادلۃ الأوراق النقدیۃ إنما تجوز بشرطما ثلھا ولا یجوز التفاضل فیھا''. (البحوث: ١٦٤، دارالعلوم کراتشی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی