بغیر احرام کے حرم میں داخل ہونے کا حکم

بغیر احرام کے حرم میں داخل ہونے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں عام طور پر ہردو تین ماہ بعد مکہ مکرمہ میں عمرہ کی نیت سے حاضری دیتا ہوں، لیکن پچھلے ہفتہ مجھے ایک نجی کام کے سلسلے میں مکہ مکرمہ جانا تھا ،وقت کم تھا اس لیے میں نے یہاں اپنے ائیر فورس کی مسجد کے امام صاحب سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ میں صرف اپنے کام کی غرض سے مکہ جارہا ہوں او رعمرہ کی نیت نہیں ہے تو میرے لیے کیا حکم ہے انہوں نے بتایا کہ میں اپنے عام لباس جاسکتا ہوں ،خیر میں یہاں سے پتلون قمیص میں گیا اوراپنا کام کیا ایک دو نمازیں بھی حرم شریف میں ادا کیں اور واپس آگیا، یہاں آنے پر جب میرے ایک دوست کو پتہ چلا کہ میں حدود حرم میں بغیر احرام کے داخل ہوا ہوں تو انہوں نے ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تم نے سخت غلطی کی ہے اور تم پر تو دم واجب ہو گیا ہے ،میں نے مزید ریاض میں ہمارے ائیر فورس کے ایک امام صاحب سے فون پر رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ ہاں تم نے غلطی کی ہے،لیکن دم واجب نہیں ہوا، اب میں کافی پریشان ہوں، اس لیے آپ سے راہنمائی چاہوں گا،کیوں کہ یہاں کافی لوگ اسی طرح جب اپنے کسی کام سے یا ڈیوٹی پر جاتے ہیں تو بغیر احرام کے جاتے، ان میں خاص طور پر ڈرائیور وغیرہ پھر سرکاری ملازمین بھی امید ہے کہ آپ جواب لکھ کر مشکور فرما دیں گے۔

جواب

جو آدمی حرم میں بغیر احرام داخل ہو جائے، اس پر حج یا عمرہ لازم ہو جاتا ہے، اگر اسی سال اس کو حج فرض ادا کرنا ہو تو جب حج کرلے احرام باندھے تو حج فرض ادا ہو جائے گا اور وہ حج بھی جو بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے لازم ہوا ہے ، لیکن اگر ایک سال گزر جائے تو پھر حج فرض کے ادا کرنے سے وہ حج ادا نہیں ہوگا، جو بغیر احرام حرم میں ہونے کی وجہ سے اس پر لازم ہوا تھا بلکہ مستقل حج وعمرہ اس نیت سے کرے گا کہ جو تقصیر مجھ سے ہوئی تھی کہ بغیر احرام کے حرم میں داخل ہو ا تھا یہ حج وعمرہ اس کے لیے کر رہا ہے۔
"ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکۃ بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلہا فعلیہ حجۃ أو عمرۃ کذا فی محیط السرخسی فی باب دخول مکۃ بغیر إحرام".(الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الثانی فی المواقیت،١/٢٢١،رشیدیۃ)

"وقد تجب کما إذا اجاوز المیقات بلا إحرام(قولہ کما إذا جاوز المیقات بلا إحرام) أی فإنہ یجب علیہ أن یعود إلی المیقات ویلبی منہ، وکذا یجب علیہ قبل المجاوزۃ قال فی الہدایۃ ثم الآفاقی إذا انتہی إلی المواقیت علی قصد دخول مکۃ علیہ أن یحرم قصد الحج أو العمرۃ عندنا أو لم یقصد لقولہ - صلی اللہ علیہ وسلم - لا یجاوز أحد المیقات إلا محرما ولو لتجارۃ ولأن وجوب الإحرام لتعظیم ہذہ البقعۃ الشریفۃ، فیستوی فیہ التاجر والمعتمر وغیرہما".(رد المحتار، کتاب الحج، ٢/٤٥٥، سعید)

"اٰفاقی مسلم مکلف أراد دخول مکۃ أو الحرم ولو لتجارۃ أو سیاحۃ وجاوز اٰخر مواقیتہٖ غیر محرم ثم أحرم أو لم یحرم اثم ولزمہ دم وعلیہ العود إلی میقاتہ الذی جاوزہ او الی غیرہ اقرب او ابعد والی میقاتہ الذی جاوزہ افضل ، وعن ابی یوسف رحمہ اللہ تعالی ان کان الذی یرجع محاذیا لمیقاتہ الذی جاوزہ او ابعد منہ سقط الدم و الا فلا، فإن لم یعد ولا عذر لہ أثم اخریٰ لترکہٖ العود الواجب، فإن کان لہ عذر کخوف الطریق، أو الانقطاع عن الرفقۃ، أو ضیق الوقت أو مرض شاق ونحو ذٰلک فاحرم من موضعہ ولم یعد إلیہ لم یأثم بترک العود وعلیہ الاثم والدم بالاتفاق".(غنیة الناسک:فصل فی مجاوزة الاٰفاقی وقتہ، ص: 60، ط: ادارة القرآن و العلوم الاسلامیة).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی