ای ٹور(E-Tour) آن لائن کمپنی کا حکم

ای ٹور(E-Tour) آن لائن کمپنی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہE-Tour ایک آن لائن کمپنی ہے، جس میں کچھ انوسٹمنٹ (سرمایہ کاری) کرنی ہوتی ہے، جس پر ہمیں روزانہ ریواڈ ڈالر کی صورت میں مل رہا ہوتا ہے ،ہمیں روزانہ کچھ ٹکٹ بک کرنے ہوتے ہیں، اس پر ہمیں پرافٹ مل رہا ہوتا ہے ،جتنا زیادہ پرافٹ ہوگا،اتنا زیادہ نفع ملے گا، ہماری انوسمنٹ(سرمایہ کاری) 35 سے 40 دن میں وصول ہوجاتی ہے، اس کے بعد ہمیں پرافٹ ملتا رہتا ہے، سب سے پہلے خود کو رجسٹر کروانا ہوتا ہے اور Binance کے ذریعے انوسمنٹ کرنی ہوتی ہے اور روزانہ ٹکٹ دیکھنے ہوتے ہیں ٹکٹ کو اوپن کرنا ہوگا جس سے اس کو لینے کا منافع ساتھ لکھا ہوگا اور ہم کو اپنے پیسے انوسمنٹ کر کے کچھ سیکنڈ کے لیے ٹکٹ کو ریزرو کرنا ہوتا ہے اور کچھ لمحات بعد ہمیں منافع مل جاتا ہے اور یہ سارا طریقہ کار کمانی کرنے کا ہے۔

اب اس کے آگے کمائی کرنے کے طریقے بتاتی ہوں۔

(۱) اگر ہم 100 ڈالر لگاتے ہیں ،اس پر ہمیں 8.88 ڈالر منافع ملتا ہے۔

(۲) ٹیم بناتے ہیں اور اس کے بندوں کے لحاظ سے بھی آپ کو منافع ملتا ہے، جیسے کہ 10 بندوں کی ٹیم پر 28 ڈالر اور اگر 30 کی ٹیم ہو تو 88 ڈالر منافع ملتا ہے۔

(۳) اگر آپ کے ذریعے کسی نے رجسٹریشن کی ہے تو آپ کو بھی 9.99 ڈالر ملیں گے۔

(۴) اگر پہلی بار 200 ڈالر لگائیں گے تو آپ کو 8.88 ڈالر پرافٹ ملے گا اور 5000 ڈالر پر 128.8 ڈالر ملے گا ۔

(۵) اس کے علاوہ واٹس ایپ گروپ میں جب آپ بتاتے ہیں کہ میں نے اتنا Recharge کیا ہے تو اس کی پرومشن پر آپ کو 6 ڈالر منافع دیا جاتا ہے۔

(۶) اگر آپ کا Sub-Ordinate جس نے آپ کے ریفرنس پر رجسٹریشن کی ہے،وہ 200 ڈالر لگائے گا تو آپ کو بھی اس کمپنی کے لیے کام کرنا یا انوسمنٹ کرنا شریعت کے رو سے حلال ہے یا حرام؟

جواب

سوال میں مذکورہ (ای ٹور / E-Tour) ایک ایپلیکشن ہے، جو ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام کے تحت کام کرتی ہے اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام میں شرعی اعتبار سے مختلف مفاسد اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مثلا: غرر، دھوکہ دہی وغیرہ۔ (مذکورہ کمپنی میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں)

(۱) یہ کمپنی کوئی مصنوعات نہیں بیچتی، بلکہ اس کا مقصد ممبر سازی کے ذریعے کمیشن کا کاروبار کرنا ہے۔

(۲) اس کمپنی میں فرضی ٹکٹیں خرید کر منافع حاصل کیا جاتا ہے، در حقیقت جو کہ قرض دے کر منافع حاصل کرنا ہے، کہ ربا / سود ہے۔

(۳) شرعی طور پر دلال (ایجنٹ ) کو اپنی دلالی کی اجرت (کمیشن) ملتی ہے، جو کہ کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ کمپنی کے ممبر کی اجرت ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے اور یہ شرعا جائز نہیں۔

(۴) مذکورہ کمپنی میں کوئی حقیقی تجارت نظر نہیں آتی، بجزیہ کہ فرضی سر گرمی میں لگ کر پیسے کے بدلے پیسوں کا معاملہ کیا جاتا ہے اور یہ معاملہ سود کے مشابہ ہے، جو کہ شرعا درست نہیں، ان مفاسد کی وجہ سے کمپنی کا ورکر بننا درست نہیں، تو کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔

لمافي التنوير:

«باب الربا»«هو لغة: مطلق الزيادة، وشرعًا: فضل خال عن عوض بمعيار شرعي مشروط لأحد المتعاقدين في المعاوضة.

وفي الشامية: نعم هذا يناسب تعريف الكنز بقوله فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال». (كتاب البيوع، باب الربا: 7/416، 417، رشيدية)

وفي الرد:

«إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل». (كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: 9/78، رشيدية)

وفي الرد:

«مطلب: في أجرة الدلال» تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام».(كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، مطلب في أجرة الدلال:9/107، رشيدية)

وفيه أيضًا:

«مطلب كل قرض جر نفعًا حرام»«قوله: (كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر». (كتاب البيوع، فصل في القرض: 7/413، رشيدية)

وفي تفسير ابن كثير:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡخَمۡرُ وَٱلۡمَيۡسِرُ وَٱلۡأَنصَابُ وَٱلۡأَزۡلَٰمُ رِجۡسٞ مِّنۡ عَمَلِ ٱلشَّيۡطَٰنِ فَٱجۡتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ 90﴾. (المائدة: 90)

قال ابن كثير رحمة الله عليه في تفسير هذه الآية: يقول تعالى: ناهيًا عباده المؤمنين عن تعاطي الخمر والميسر وهو القمار. (تفسير ابن كثير: 2/546، 547، دار الكتاب العربي)

وفي روح المعاني:

«وقال العلامة الآلوسي رحمة الله عليه: ومن مفاسد الميسر أن فيه أكل الأموال بالباطل وأنه يدعو كثيرًا من المقامرين إلى السرقة وتلف النفس وإضاعة العيال وإرتكاب الأمور القبيحة والرذائل الشنيعة والعداوة الكامنة والظاهرة وهذا أمر مشاهد لا ينكره إلا من أعماه الله تعالى وأصمه». (2/114، 115، دار إحياء التراث العربي).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/290