ایمازون پر ڈراپ شپنگ کا حکم

ایمازون پر ڈراپ شپنگ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایمازون پر کاروبار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے جس کو ڈراپ شپنگ کہاجاتا ہے اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ڈراپ شپنگ یہ ہے کہ ایمازون ویب سائٹ پر اسٹور بنایا جاتا ہے ،اور جو اشیاء بیچنا مقصود ہیں، وہ اگر چہ آپ کے پاس نہیں ہیں، لیکن وہ کہیں سے خرید کر اس ویب سائٹ کو ارسال کردی جاتی ہیں، اور اپنے دام لگا کر اس کو آگے بیچا جاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس میں قبضہ مفقود شمار ہوگا جس کی وجہ سے یہ ناجائز ہوگا؟ یا اس ویب سائٹ کا قبضہ ہماری طرف سے کافی ہے؟ کیا ویب سائٹ کا یہ قبضہ وکالت کے حکم میں آئے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں ایمازون ویب سائٹ والوں کا قبضہ شرعاً خریدار کا قبضہ ہے، اگر درج ذیل امور کا خیال رکھا جائے، تو خریدار کے لیے اس چیز کو آگے فروخت کرنا شرعت درست ہے:

  • حلال اشیاء کی فروخت ہو۔
  • تشہیر کے دوران کوئی غیر شرعی تصویر نہ ہو۔
  • فروخت کی جانے والی چیز اور قیمت کے مکمل اوصاف اور تفصیل بیان ہو۔
  • خریدار کو چیز دیکھنے کے بعد خیار رؤیت حاصل ہو، محض دیکھنے سے خیار رؤیت ساقط نہیں ہوگا۔
  • خریدار کو خیار عیب بھی حاصل ہو۔
  • سونا چاندی کی خریدوفروخت میں ایک ہی وقت جانبین کا قبضہ پایا جانا ضروری ہے، اور یہ صورت آن لائن کاروبار میں ممکن نہیں، لہٰذا سونے چاندی کی آن لائن تجارت نہ کی جائے۔
  • کوئی شرطِ فاسد یا کوئی اور خلاف شرع بات نہ ہو۔

لما في البدائع:
’’وأما شرائط الصحہ فأنواع........ومنھا أن یکون المبیع معلوما، وثمنہ معلوما علما یمنع من المنازعۃ، فإن کان احدھما مجھولا جھالۃ مفضیۃ إلی المنازعۃ فسد البیع‘‘. (کتاب البیوع، فصل في شروط الصحۃ: 598/6،رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’وفي التحفۃ: لو نظر في المرآۃ فرأی المبیع قالوا: لایسقط خیارہ؛ لأنہ ما رأی عینہ ،بل مثالہ‘‘. (کتاب البیوع: 155/7، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/168