انعام کے حصول کے لیے کمپنی کی متعین چیز کو فروخت کرنے کے لیے اپنی جیب سے پیسہ لگانا

انعام کے حصول کے لیے کمپنی کی متعین چیز کو فروخت کرنے کے لیے اپنی جیب سے پیسہ لگانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک میڈیکل ریپ ہوں، کمپنی مجھے پروڈکٹ کی ایک مخصوص قیمت بتاکر کہتی ہے کہ اس کو اسی قیمت پر بیچو، لیکن اس پروڈکٹ کی مارکیٹ میں قیمت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے میرے پروڈکٹ کی سیل نہیں ہوتی، پھر میں اپنی سیل کے لیے اپنے جیب سے پیسے دے کر اس پروڈکٹ کو کم قیمت پر دے کر سیل کرتا ہوں، جس کے بعد میرا ماہانہ ٹارگٹ پورا ہو کرکمپنی مجھے تنخواہ دیتی ہے۔

 لہذا سوال یہ ہے کہ کیا اس پروڈکٹ کو اپنی جیب سے رقم دے کر بیچنا جائز ہے یا نہیں اور ساتھ میں یہ بات بھی ہے کہ یہ جو رقم میرے جیب سے لگی ہے، اس کو کسی دوسری مد مثلا کھانے، پینے کی رقوم یا سفری اخراجات جو ہمیں کمپنی دیتی ہے اس میں کمپنی سے اس رقم کو حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت: تنخواہ ملنے کے لیے ٹارگٹ کو پورا کرنا ضروری نہیں، بلکہ ٹارگٹ کو پورا کرنے کا مقصد انعام کا حصول ہوتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں پروڈکٹ کومتعین کردہ قیمت سے کم قیمت پر دے کر بقایا رقم اپنی جیب سے بھر نا جائز ہے، البتہ جو رقم اپنی جیب سے بھری ہے اس کو کسی دوسری مد، مثلاً، کھانے پینے کی رقوم، یا سفری اخراجات میں کمپنی کی اجازت کے بغیر کمپنی سے حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔
لمافي الترغیب والترھیب:
’’عن ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:«من غشنا فلیس منا، والمکر والخداع في النار»‘‘.(کتاب البیوع وغیرھا، ا لترھیب من الغش في النصیحۃ في البیع وغیرہ، [رقم الحدیث: ٢٧٤٣]، ٢/ ٤٥٠: دار الکتب العلمیۃ).
وفي شرح المجلۃ لسلیم رستم باز:
’’إذا عین الموکل الثمن فلیس للوکیل بیعہ بأنقص مما عینہ الموکل، فإذا باع ینعقد البیع موقوفا علی إجازۃ الموکل، ولو باعہ بنقصان الثمن بلا إذن الموکل وسلم المال إلی المشتري فللموکل أن یضمنہ ذلک النقصان‘‘.(الکتاب الحادي عشر: في الوکالۃ، الفصل الثالث: في الوکالۃ بالبیع، المادۃ: ١٩٥، ص٦٣٠: المکتبۃ الحقانیۃ)
وفي المبسوط للسرخسي:
’’ولو قال: ''بعہ بألف نسیئۃ'' فباعہ بألف أو أکثر من ألف بالنقد، فھو جائز؛ لأنہ حصل مقصود الأمر، وزادہ خیرا بزیادۃ في قدر المسمی، أو في صفۃ الحلول، وإن باعہ بأقل من ألف بالنقد، لم یجز؛ لأنہ خالف مقصودہ، وما سمی لہ، فإنہ أمرہ بأن یدخل في ملکہ بمقابلۃ العبد ألفا، وقد أدخل في ملکہ دون ذلک‘‘.(کتاب الوکالۃ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء، ١٩/ ٦٣: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:98/ 175