انعامی بانڈز کی خریدوفروخت کا حکم

انعامی بانڈز کی خریدوفروخت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا گھرانہ پانچ افراد پر مشتمل ہے جو کہ انتہائی غریب ہیں، حالیہ دور میں بے روزگار ہے، جب کہ گھر کی کفالت بھی زید پر ہے، اس نے کاروبار شروع کرنا چاہا ،لیکن کوئی شخص اس کو قرض دینے پر رضامند نہیں۔

اب اس نے کسی طریقے سے تین ہزار روپے جمع کرکے اس سے انعامی بانڈز لیے اور یہ انعامی بانڈ سو روپے کا بھی ہوتا ہے 500اور 1000روپے کابھی ہوتا ہے،تو اس طرح سو روپے کے بانڈ پر دس ہزار روپے انعام، پانچ سو روپے کے بانڈ پر پچاس ہزار روپے انعام اور ہزار روپے کے بانڈ پر ایک لاکھ روپے انعام ملتا ہے، جس کا نتیجہ ہر ماہ یا تین ماہ کے بعد بذریعہ اخبار نکلتا ہے،لیکن اگر انعام نہ نکلا تو وہی بانڈ واپس کرکے اپنے پیسے لیے جاسکتے ہیں،مگر زید کا کہنا ہے کہ اگر میرے بانڈز پر انعام نکل آیا تو میں اس انعامی رقم سے کاروبار شروع کروں گا او ریہی انعامی رقم اپنے اوپر قرضہ سمجھوں گا،اب کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی سے آہستہ آہستہ یہ قرض(انعامی رقم کو) ادا کرتا رہوں گا،اور یہ (انعامی رقم )قرض دینی مدارس اور غریبوں میں تقسیم کی جائے گی،تاکہ غریبوں کا بھی فائدہ ہو،اور میرا بھی(غریب ہونے کے ناطے)کام ہوجائے۔

آیا یہ طریقہ کاروبار جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو فبہا اور اگر ناجائز ہے تو کوئی اور صورت بھی جواز کی ہے یا نہیں؟

جواب

انعامی بانڈزکی خریدوفروخت اور اس سے حاصل شدہ انعام لینا اور پھر اس سے صدقہ و خیرات کرنا سب ناجائز او رحرام ہے،کاروبار کے لیے شریعت میں بے شمار جائز طریقے بھی موجود ہیں ،انہی کو اختیار کرکے اﷲتعالیٰ پر بھروسہ کیاجائے، اور کفالت و قناعت کی زندگی اپنا کر ان تین ہزار روپے سے کوئی جائز کام شروع کرکے حلال کمائی کی فکر کریں، اﷲ تعالیٰ کے ہاں حلال کا ایک روپیہ پوری دنیا سے بہتر ہے۔

''قال اﷲ تعالی: (أحل اﷲ البیع وحرم الربوا).(سورۃ البقرۃ: ٢٧٥)

قال العلامۃ الجصاص رحمہ اﷲ: القمار کلہ من المیسر۔۔۔وھو السھام التی یجلیونھا فمن خرج سھمہ استحق منہ ما توجبہ علامۃ السہم فربما أخفق بعضھم حتی لا یحظی بشيء وینجح البعض فیعظی بالسھم الوافر،وحقیقۃ تملیک المال علی المخاطرۃ، وھو أصل في بطلان عقود التملیکات الواقعۃ علی الأحظار''.(أحکام القرآن للجصاص: ٢/٤٦٥، بیروت)

''وفي الأشباہ: کل قرض جرّ نفعا حرام''.(الأشباہ والنظائر: ٣/٩٨، إدارۃ القرآن،کراتشی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی