کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کیا حضرت حسینؓ کو امام کہنا درست ہے کہ نہیں؟ جب کہ اہل سنت کا ہر امام بمعنی مقتدا اور پیشوا ہوتا ہے اوراہل تشیع کے ہاں امام کا مطلب عالم الغیب ومعصوم اورنبیوں سے بالا (بڑھ کر)ہے؟
حضرت حسینؓ کے نام کے ساتھ امام کہنے سے احتراز کرناچاہیے ،کیوں کہ اہل تشیع کے ہاں اس کا مفہوم بہت غلط ہے وہ امام کو عالم الغیب اور معصوم سمجھتے ہیں ،ان کے ہاں امام کا درجہ نبیوں سے بڑا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صریح کفر ہے ،اہل حق کے ہاں اگر چہ امام کا یہ مفہوم نہیں ،مگر اس سے مغالطہ ضرور ہوتا ہے اور رافضیوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے۔لما في الفقہ الاسلامي وأدلتہٖ:
’’فنصب الإمام إذن لطف، وكل لطف واجب على الله تعالى، فنصب الإمام واجب على الله تعالى...... ويخلصون من هذا إلى أن الإمامة ركن الدين وقاعدة الإسلام، ولا يجوز لنبي إغفاله ولا تفويضه إلى الأمة، بل يجب عليه تعيين الإمام لهم، ويكون معصوماً من الكبائر والصغائر‘‘.(الباب السادس،المبحث الثاني،ثالثا:رأي الشیعۃ الإمامیۃ...أدلۃ الشیعۃ۲۸۰/۸،دارالفکر بیروت).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی