مغرب زدہ مسلمانوں کی غلط فہمی

idara letterhead universal2c

مغرب زدہ مسلمانوں کی غلط فہمی

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

کئی مرتبہ ہمارے ہاں مغرب کا سفر کرنے والے مسلمان فخریہ کہتے ہیں کہ اہل مغرب کے اخلاق بہت اچھے ہیں اور منھ بھر بھر کر فخر کرتے ہیں اور موٹی بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں کا تاجر خرید وفروخت کے اندر کسی کو دھوکہ نہیں دیتا اور ہمارے ہاں معاملہ بالکل برعکس ہے کہ ہر چیز میں اونچ نیچ نظر آتی ہے، تو بھائیو! سمجھ لینا چاہیے کہ اہل مغرب یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ اپنی اغراض کو حاصل کر لیں اور پیسہ زیادہ سے زیادہ کمائیں، جب یہ غرض بیچ میں سے ختم ہوجائے تو پھر دیکھ لینا کہ کس طرح منھ پر لات مارتے ہیں اور اللہ کی شان کہ وہ کفر کی تلخی کبھی ہمارے حلق کے اندر اتری نہیں، اس لیے ہمیں اندازہ نہیں ۔

اخلاق تو یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کیا جائے اور مقصود صرف اللہ کی رضا ہو، ایک آدمی اس لیے سچ بولتا ہے کہ لوگ صادق کہیں اور وہ اپنے مفادات حاصل کرے تو یہ اخلاق نہیں۔ اگر ہم اپنے کسی بُرے عمل کی وجہ سے اخلاق حمیدہ سے محروم ہیں تو یہ کفر کی ایک شاخ ہمارے معاشرے کے اندر داخل ہوگئی ہے، مسلمان ہونے اور اسلام کی وجہ سے ایسا نہیں ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سارے مسلمان ایسے بد اخلاق نہیں، بلکہ جو دین داری میں اور ایمانی کیفیات میں کمزور پڑ گئے ہیں وہ اس قسم کے معاملات میں مبتلا ہیں اور وہ تمام بری باتیں مسلمان معاشرے کی مرہون منت نہیں، بلکہ غیر مسلم معاشرے کے کرتوت ہیں، جو ہمارے اندر داخل ہوگئے ہیں، ہمیں چاہیے کہ کفر کی ان تمام شاخوں کو اپنے معاشرے سے باہر نکالیں۔

اسلامی معاشرہ اگر دیکھنا ہے تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا معاشرہ دیکھ لیجیے، آج اگر ہم اس معاشرے سے محروم ہیں تو ہمیں اللہ کے سامنے رونا چاہیے، نہ کہ ہم کفار کی تعریفیں شروع کردیں، یہ بات تو اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے کہ جو لوگ بد اخلاقی کی چوٹی پر پہنچے ہوئے ہیں کہ اپنے رب اور خالق کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ آج ہماری نگاہوں میں اخلاق والے ہیں اور جو لوگ اللہ کی نگاہوں میں ذلیل ہیں ہماری نگاہوں میں عزت والے ہیں، مسلمان معاشرے کے اندر یہ بات کبھی بھی نہیں ہوسکتی، قرآن اور حدیث کا ترازو ہمارے پاس موجود ہے، ہم اس ترازو پر اپنی جانچ پڑتال کریں تو پتہ چلے کہ ہمارا اپنا مقام کیا ہے۔

مجالس علم و ذکر سے متعلق