الله کے سوا سب محتاج ہیں

idara letterhead universal2c

الله کے سوا سب محتاج ہیں

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

کون خالق ہے؟ اللہ۔ کون رب ہے؟ کون غنی ہے؟ اللہ ، دوسرے سارے اپنے وجود میں، اپنی تن درستی میں، اپنی ضروریات میں، الله کے محتاج ہیں، اللہ کی مخلوق میں سب سے اشرف وافضل مخلو ق سید الاولین والآخرین محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑی توکوئی مخلوق نہیں ہے ، کیا آپ کی زندگی چھپی ہوئی ہے ؟ نہیں بلکہ چَھپی ہوئی ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی پوشیدہ نہیں ، ظاہر ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات سب الم نشرح ہیں، دنیا جانتی ہے کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم مکے میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے،جوان ہوئے، مکے میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی۔نبوت ملنے کے بعد جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے توحید کی دعوت دی تو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے، دعوت یہی تھی کہ الله خالق ومالک ہے، اللہ رب ہے، اللہ غنی ہے، یہی اعلان آپ صلی الله علیہ وسلم کی مکے والوں سے دشمنی کا سبب بن گیا، دشمنوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تکلیفیں پہنچائیں، اذیتیں دیں، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے کیوں ہجرت کی ؟اگر آپ صلی الله علیہ وسلم محتاج نہیں تھے؟ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم مالک کل تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں سب کچھ تھا او رآپ صلی الله علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع نہیں تھے تو کیوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ تکلیفیں اٹھائیں؟ اور کیوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو چھوڑا؟ کیا مکہ مکرمہ کو چھوڑنے کا آپ صلی الله علیہ وسلم کو شوق تھا ؟ ہر گز نہیں۔ کیا مکہ مکرمہ سے زیادہ پسندیدہ اور زیادہ عمدہ بہترین جگہ مدینہ منورہ تھی؟ نہیں۔ مکہ میں اللہ کا گھر ہے، مکہ میں بیت الله ہے، مکہ کی سر زمین حرم پاک ہے، مکہ کی سرزمین آپ صلی الله علیہ وسلم کا مولد اور منشا ہے۔ وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں، مدینہ کو تو فضیلت آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانے کے بعد ملی ہے، اس سے پہلے تو اس مقام کو کوئی فضیلت حاصل نہیں تھی، یہ ایک موٹی سی بات ہے جو ہر مسلمان جس کوبھی تھوڑی شُد بُد ہے، جانتا ہے، اس نے سنا ہے کہ اللہ کے نبی جو سید الاولین والآخرین ہیں، وہ بھی اللہ کے محتاج ہیں اور اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہیں، خود اختیار نہیں رکھتے۔ قرآن مجید کی صاف صاف آیت ہے: ﴿ اِنَّکَ لاَ تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ الله َیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاء ﴾۔ (قصص:56)

آپ کے اختیار میں نہیں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جس کو چاہیں ہدایت دے دیں، یہ تواللہ کے اختیار میں ہے۔ جگہ جگہ قرآن مجید نے کہا ۔ اعلان کرو ”اے محمد!صلی الله علیہ وسلم کہ مجھے نفع پہنچانے یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں“۔ کھلی ہوئی اور واضح ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے لوگ جو کلمہ پڑھتے ہیں اور ہر نماز میں ”اہدنا الصراط المستقیم “ کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ اے الله ! ہمیں صراط مستقیم پر چلائیے، پھر بھی شرک میں مبتلا ہیں، بدعات کے داعی ہیں اور پھر تاویلیں کرتے ہیں، سیدھی بات کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کون نہیں جانتا کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امت کو دین کی تعلیم دی ہے، اس میں کہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ کہا کہ میرے نام کی بھی نیاز دیا کرنا؟ میرے نام پر بھی نذرماننا ؟ نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے نام پر نذر ماننے کی ہدایت دی، نہ اپنے نام کی نیاز دینے کی ہدایت کی۔ نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی قبر کو یا اپنی ذات کو سجدہ کرنے کی اجازت دی، بلکہ سختی سے ان باتوں سے منع کیا، تو آپ کے لیے یا کسی ولی اور بزرگ کے لیے ان باتوں کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟