اپنی زندگی کا رُخ تبدیل کیجیے!

idara letterhead universal2c

اپنی زندگی کا رُخ تبدیل کیجیے!

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

عزیز و اور دوستو ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین اور عمدہ موقع فراہم کیا ہے، میں آپ سے نہ کسی بہت اعلیٰ ریاضت کا مطالبہ کر رہا ہوں اور نہ کسی سخت مجاہدے میں آپ کو ڈال رہا ہوں، نہ آپ کے کندھوں پر بے جا مشقت کا بوجھ لاد رہا ہوں۔ نہیں ! بلکہ یہ جو آپ کی زندگی ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنا رُخ تبدیل کریں کہ یہ پڑھنا عمل کے طور پر ہو، صرف نقوش حاصل کرنا نہ ہو اور تقویٰ حاصل کرنے کے لیے معاصی سے اجتناب کیا جائے، معاصی کے ارتکاب سے دل سیاہ ہوتا ہے اور جب دل سیاہ ہوجاتا ہے تو اللہ اور اس کے رسول سے غفلت ہوجاتی ہے اور خدا نخواستہ یہ غفلت ترقی کر جائے تو پھر کوئی کتنا بھی سمجھائے اس کے سمجھانے کا اثر نہیں ہوتا، بلکہ سمجھانے سے الٹا نقصان ہوتا ہے کہ سمجھانے والے کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔بہت خطرناک بات ہوجاتی ہے اور آج ہمارا اہل علم کا جو طبقہ ہے وہ عامَّةً اسی طرح کی صورت حال سے دو چار ہے، اہل صلاح وفلاح، اہل تقویٰ و معرفت کا فقدان ہے، حالاں کہ بڑی بڑی صلاحیتیں ہمارے ان بچوں اور طلباء میں ہوتی ہیں ، لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علماء اور طلباء کی یہ حالت ہے اور علم کا نور حاصل نہیں ہورہا ہے اور علم کے نور کو حاصل کرنے کی کوششیں مفقود ہیں تو پھر ان مدرسوں کی ضرورت کیا ہے؟یہ کروڑوں روپے کی بلڈنگیں بن رہی ہیں، کروڑوں روپے مدرسے کے نظام پر خرچ ہو رہے ہیں، اس کی کیا ضرورت ہے کہ جب علم کے نور سے یہ مدارس آباد نہیں ہیں، بلکہ اس دولت سے ویران نظر آتے ہیں؟! تو اس کا جواب وہی ہے جو نظام الملک کو امام غزالی نے دیا جب وہ طالب علم تھے۔

آپ نے سنا ہے کہ نظام الملک مدرسہ نظامیہ بغداد میں تشریف لائے ، طلباء کو انہوں نے دیکھا کہ وہ مطالعہ میں اور مذاکروں میں مشغول ہیں، ان سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگ مدرسہ آئے ہیں اور یہاں علم حاصل کر رہے ہیں، آپ کی نیت کیا ہے؟ اور آپ کیوں یہ علم حاصل کر رہے ہیں؟ تو کسی نے کہا کہ میں قاضی بنوں گا، کسی نے کہا کہ میں مفتی بنوں گا، کسی نے کہا کہ میں خطیب اور مقرر بنوں گا، ہر کسی نے اپنے اپنے ارادے اور عزائم کا ذکر کیا، اتنے میں نظام الملک امام غزالی رحمہ الله تعالیٰ کے پاس بھی پہنچے، وہ بھی طالب علم تھے اور مطالعے میں مصروف تھے، انہوں نے امام سے سوال کیا کہ آپ کیوں آئے ہیں اور کس لیے پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا ! میں اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ میرا ایک رب ہے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے، میں اس کا بندہ ہوں اور وہ میرے معبود ہیں،میں اس کے اوپر ایمان لایا ہوں اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ میں اس کے احکام کی بجا آوری کروں، تاکہ وہ خوش ہوجائے اور راضی ہوجائے، تو اس مقصد کے حصول کے لیے یہاں آیا ہوں ۔ تونظام الملک نے کہا کہ میں نے تو اس مدرسے کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن تم ایک طالب علم مجھے ایسے ملے ہو جس نے میری ہمت بڑھائی ہے کہ ایک تو اللہ کا بندہ اللہ کے لیے علم حاصل کر رہا ہے۔