اسلام میں خاندانی نظام کاتصور

اسلام میں خاندانی نظام کاتصور

مولانا ابوبکر حنفی شیخوپوری

اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق فرمانے کے بعد نظام ِ کائنات کو چلانے کے لیے اس میں خاندانی نظام تشکیل دیا،سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے، جن کی بائیں پسلی سے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا کیا گیا،یہ میاں بیوی اس خاندانی نظام کا نقطہ آغاز تھے ،پھر ان سے انسانی نسل بڑھنا شروع ہوئی،چناں چہ قرآن ِ کریم میں ارشاد ِ خداوندی ہے:اللہ نے مٹی سے انسان کی تخلیق کی ابتدا فرمائی، پھر اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی کے خلاصہ سے پیدا فرمایا(السجدہ)معلوم ہوا کہ میاں بیوی کا وجود نظام ِ عالم کی بنیادی اکائی ہے، جس کے بغیر دنیا کی آباد کاری کا تصور محال ہے۔

خاندانی نظام اور ہمارا طرز ِ عمل

دور ِ حاضر کا یہ المیہ ہے کہ خاندانی نظام بحیثیت ِ مجموعی تنزلی اور پستی کا شکار ہے،انسانی زندگی کا یہ اہم ترین رشتہ تنازعات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے،ضد اور اناکے بڑھتے ہوئے رجحان نے اسے خود غرضی کی بھینٹ چڑھا کر اس کے تقدس کو ایسا پامال کیا ہے کہ الامان والحفیظ۔گھر گھر میں نفرت کی سلگتی آگ نے ماحول کو حرارت اور تپش سے ایسا معمور کیا ہے کہ محبت و الفت کا شجر ِسایہ دار سوکھا ہوا تنا بن چکا ہے،عدالتوں میں خلع اورتنسیخ ِ نکاح کے ہزاروں کیس رپورٹ ہیں،کچہریوں میں ماں باپ میں سے کسی ایک کوبچے کی جبری حوالگی کے کرب ناک اور دل سوز مناظر روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں،اپنی آنکھوں میں مستقبل کی معماری کا خواب سجانے والے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کے قابل ِ قدر جذبات سینوں میں پالنے والے ہزاروں نونہالان ِ قوم والدین کے جھگڑے میں اپنا مستقبل داوٴ پر لگا بیٹھتے ہیں۔اس تشویش ناک خاندانی صورت حال سے کیسے نکلا جائے اور معاشرے کو کس طرح امن و سکون کا گہوارا بنایا جائے؟اس کے لیے اسلام کے اس بنیادی تصور کا مطالعہ ضروری ہے، جو خاندانی نظام کے احیاء اور اور بقاکے لیے اس نے دیا ہے اور ان خامیوں کا ازالہ کرنا ناگزیر ہے جو خاندانی اور معاشرتی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔آئیے! قرآن وسنت کے زریں اصولوں کی روشنی میں اس اہم عنوان پر موجود شرعی ہدایات اور دینی تعلیمات کاجائزہ لیتے ہیں۔

مزاج میں ہم آہنگی

خاندانی نظام کو مثالی نظام بنانے کے لیے شریعت ِ مطہرہ نے جو ہدایات دی ہیں ان میں سب سے پہلی اوربنیادی چیز میاں بیوی کے درمیان مزاج و مذاق میں ہم آہنگی ہے،زندگی کے اہم ترین رشتے کو آخر عمر تک نبھانے کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ شادی سے پہلے اپنی پسند ناپسند کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کراور اپنی سابقہ طرز ِ معاشرت سے صرف ِ نظر کر کے اس نئی زندگی کے لیے ایک دوسرے کی عادات اور معیارات کو سمجھا جائے اور اس کی رعایت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے،اس میں شک نہیں کہ اس پر کچھ وقت لگے گا، لیکن حیات ِ مستعار کا یہ سفر محب والفت کی گھنی چھاوٴں میں گزرے گا اور گھر جنت نما بن جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ِ لحاظ ہے کہ اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک ناسمجھی میں یا کسی مجبوری کے تحت کوئی خلاف ِ مزاج کام کر دے تو دوسرااس کو خندہ پیشانی سے قبول کرے اور اس کو بنیاد بنا کر جھگڑا نہ کرے ورنہ یہ معمولی جھگڑے کسی بڑے تصادم کا شاخسانہ بن کر محبت وپیار کی رداء کو تار تار کر سکتے ہیں،اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا عملی نمونہ ہمارے پاس موجود ہے،سورہٴ احزاب کی تفصیلات کے مطابق ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ِ مطہرات نے ایک جنگ سے مال ِ غنیمت کے حصول کے بارے میں سنا تو اپنے نان نفقہ اور روز مرہ کے اخراجات میں زیادتی کا مطالبہ کر دیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ اقلیم ِ فقر کے بادشاہ تھے، اس لیے یہ مطالبہ مزاج کے خلاف محسوس ہوا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیوی کو نہ طلاق دی ،نہ برا بھلا کہا اورنہ انہیں گھروں سے نکالا، بلکہ انہیں اپنی ناراضگی کا احساس دلانے کے لیے خود ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک بالاخانے میں گوشہ نشین ہوگئے، ایک ماہ کے بعد جب آیت ِ تخییر نازل ہوئی جس میں ازواج ِ مطہرات کو اختیار دیا گیا کہ چاہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرف ِ زوجیت کو قبول کر لیں یا دنیا کا سازو سامان لے لیں تو سب وفا شعار بیویوں نے نبوت کے پاکیزہ حرم میں رہنے کو ترجیح دی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ناراضگی ختم فرما دی ،پھر عمر بھر انہوں نے کوئی کام مزاج ِ نبوت کے خلاف نہیں کیا۔

حقوق کی ادائیگی

خاندانی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے سلسلہ میں دوسری اہم ہدایت باہمی حقوق کی ادائیگی ہے،خاوند اپنے ذمہ حقوق کی ادائیگی کو ناگزیر سمجھے اور بیوی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہو،ظاہر سی بات ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے،اگر ایک طرف سے مسلسل حق تلفی کا رویہ اپنایا جائے گا تو حد درجہ ضبط اور برداشت کے باوجود دوسری طرف سے بھی اس کا رد عمل آئے گا،پھر اس حقوق کی جنگ میں گھر جنت نظیر بننے کی بجائے میدان ِ کارزار بن جائے گا،عموماََ ان پڑھ مردوں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ بیوی کی گھر میں کیا حیثیت ہے،وہ تو محض نوکرانی ہے، جو میری خدمت کے لیے میرے ساتھ بیاہی گئی ہے اور بعض ناسمجھ عورتوں کی جانب سے یہ موقف سامنے آتا ہے کہ گھر میں ہمارا راج ہونا چاہیے ،ہم خاوند کے واجبی حقوق ادا کریں یا نہ کریں ،کوئی اس بارے میں ہم سے باز پرس نہ کرے،ایسے میاں بیوی شریعت کی حدود کو توڑنے والے اور گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگانے والے ہیں ،اسلام نے صریح لفظوں میں زوجین کے حقاق کو بیان فرمایا ہے اوران کا تعین بھی کیا ہے،چناں چہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ”ان عورتوں کے بھی (مردوں کے ذمہ) حقوق ہیں، جیسا کہ دستور کے مطابق (ان مردوں کے) عورتوں کے ذمہ حقوق ہیں“۔(البقرة)

عزت ِ نفس کا لحاظ

خاندانی نظام کو کام یابی سے چلانے کے لیے اسلام کا تیسرا زریں اصول عزت ِ نفس کا لحاظ کرنا ہے،مرد کا نجی مجالس میں عورت کی خامیاں بیان کرنا اور عورت کا اپنی سہیلیوں کے سامنے خاوند کی عیب جوئی کرنا شریعت کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہے،اس سے بڑھ کر یہ خطرناک بات ہے کہ بھرے مجمع میں ایک دوسرے سے گالی گلوچ یا دست درازی کا رویہ روا رکھا جائے،عموماََ ایسا معاملہ مرد کی طرف سے پیش آتا ہے ،خاوند گلی محلے میں عام لوگوں کے سامنے جب اپنی شریکہ حیات کو سب و شتم کرتا ہے اور سر ِ بازار اس کی عزت نیلام کرتا ہے تو یہ عورت کے لیے بڑا تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے ،جیسے مرد کا جی چاہتا ہے کہ چار لوگوں میں میری عزت ہو ایسے عورت بھی اپنے اہل ِ محلہ اور سہیلیوں میں عزت کی طلب گار ہوتی ہے۔میاں بیوی کا یہ افسوس ناک طرز ِ عمل اسلامی اصولوں سے متصادم ہے،اللہ تعالی قرآن ِ کریم میں زوجین کے باہمی تعلق کی حساسیت کو یوں بیان فرماتے ہیں”وہ (عورتیں) تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو“(البقرة)لباس ہونے کا ایک مطلب مفسرین نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جس طرح لباس وجود کو چھپاتا ہے اسی طرح میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے عیوب پر پردا ڈالنا چاہیے ۔لہٰذا ازدواجی سفر خوش گوار طریقے سے گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی کمیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور مثبت پہلووٴں کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔