معاشرے کی تشکیل میں والدین کا کردار

معاشرے کی تشکیل میں والدین کا کردار

محترم محمد وقاص رفیع

الله تعالیٰ نے زمین پر انسان کو ”اشرف المخلوقات“ بنا کر بھیجا ہے، اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری کے دائرے میں رہ کر اپنے دنیوی معاملات، خواہ اقتصادی ہوں یا سیاسی، اجتماعی ہوں یا انفرادی، علمی ہوں یا ثقافتی کے لیے مفید اور موثر ذرائع اختیار کرے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا حکم بھی دیا او رعملی نمونہ بھی پیش کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے افعال واعمال اور اخلاق وکردار کا جو مقصد اور ابدی نمونہ پیش کیا ہے وہ تاقیامت آنے والی انسانیت کی اخلاقی، دینی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، انفرادی او راجتماعی زندگی کی تنظیم وتعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔ ان شاء الله۔

صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے میدان عمل
پہلا دائرہ گھریلو زندگی کا ہے، جس کی ذمہ داری والدین او رگھر کے بڑوں پر عائد ہوتی ہے، جس میں سب سے مقدم ”باپ“ ہوتا ہے، اس کے بعد ”ماں“ ہوتی ہے ، جودراصل گھر کی حقیقی نگران او ر تمام امور کی دیکھ بھال کرنے والی ہوتی ہے، بچے کی پہلی تربیت گاہ، جہاں اس کی شخصیت کی ابتدائی تعمیر وتشکیل ہوتی ہے ،گھر یلو زندگی ہے، یہیں سے اس کے اندر اسلامی عقائد وخیالات اور اخلاقی قدروں کی محبت جاگزیں ہوتی ہے اور یہ سب کچھ والدین کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔

دوسرا دائرہ مدرسے کا ہے، جب بچہ نشوونما کے ابتدائی مرحلے سے گزر جاتا ہے او راس کی شخصیت کے ابتدائی خط وخال ابھر آتے ہیں تو وہ مدرسہ کی چہار دیواری میں قدم رکھتا ہے، پھر وہاں اسے زندگی کے حقائق ومسائل کی شُد بُد حاصل ہوتی ہے اور وہ تمام چیزیں سیکھتا ہے جن کا مستقبل کی زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے، یہیں پر اس کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر وتشکیل پایہٴ تکمیل کو پہنچتی ہے۔

تیسرا دائرہ عام اجتماعی مسائل کا ہے، جسے معاشرتی دائرہ بھی کہہ سکتے ہیں، اس میں انسان اس وقت داخل ہوتا ہے جب مدرسے سے فارغ ہو جاتا ہے، یہاں تہذیب ومعاشرت کے مسائل سے دو چار ہوتا ہے اورانہیں قریب سے دیکھتا ہے، عمل کے میدان سے گزرتا ہے، تجربات ومشاہدات کے مراحل سے گزرتا ہے، یہاں تک کہ اس کی شخصیت اس میں گھل مل جاتی ہے، بلکہ ڈھل جاتی ہے، حتی کہ وہ معاشرے کی عظیم عمارت کی ایک اینٹ بن جاتا ہے۔

بچے کی تربیت کا اہم میدان گھریلو ماحول
تربیت کے مذکورہ تینوں دائروں میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والا اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والا گھریلو ماحول کا دائرہ ہے، جس کی نگرانی والدین کرتے ہیں، ماں براہ راست اس میں دخل انداز ہوتی ہے اور باپ جو پورے خاندان کی کفالت کرتا ہے اس نگرانی کی اصل روح ہوتا ہے، بچہ اس مرحلے میں اس نرم گندھی مٹی کی طرح ہوتا ہے جسے انفرادیت اوراجتماعیت کے کسی قالب میں ڈھالا جاسکتا ہے، جس طرح کمہار نہایت صفائی اور کاری گری کے ساتھ گندھی ہوئی مٹی سے مختلف قسم کے کھلونے اور برتن بناتا ہے۔

بچہ بچپن کی ہر بات کو قبول کرتا ہے
بچے کی طبیعت او راس کی نفسیات اپنے گھریلو ماحول میں ارد گرد کے واقعات ، والدین کی نقل و حرکت او راہل خانہ کے اعمال وافعال سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے، اس کی اولین کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ دیکھ سن رہا ہے، اسے سمجھے اور جس کو پسند کرتا ہے اس کی نقالی کرے، کیوں کہ وہ اس دنیا میں نیا ہوتا ہے، اپنے ارد گرد کی تمام چیزوں کو زندگی میں پہلی بار دیکھتاہے او رکائنات کے رنگ رنگا مناظر میں گہرائی سے دلچسپی لیتا ہے۔
اہل بصیرت اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت او رزندگی کے اس نازک مرحلے میں اس کی اسلامی شخصیت کی تعمیر وتشکیل پر جو توجہ صرف کرتے ہیں اس کا راز بھی یہی ہے کہ بچہ اس مرحلہ میں آسانی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے لگتا ہے، اسے جس راہ میں لگایا جاتا ہے لگ جاتا ہے۔

بچوں کی تربیت میں ماں کی اہمیت
ماں بچے کی صحیح پرورش اور اس کے اخلاقی سدھار میں باپ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے، کیوں کہ ماں بچے کی فطری ضروریات اور مسائل سے زیادہ باخبر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بچے کو زیادہ سے زیادہ آرام وسکون بھی پہنچاتی ہے، بچہ دیکھتا ہے کہ ماں اس کی راحت وآسائش اوراس کی طفلی خواہشات وجذبات کا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے اور اس سے سب سے زیادہ شفقت ومحبت رکھتی ہے ،اس لیے اس کی نظر میں ماں کی شخصیت بہت عظیم ہوتی ہے۔ تاریخ کی بہت سی اہم شخصیات کی تعمیر وتشکیل میں جہاں اور عناصر وعوامل کا ذکر کیا گیا ہے وہیں ماں کی بے پناہ محبت او راس کی مشفقانہ تربیت وراہ نمائی کا بھی خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے۔

والدین اپنے بچوں کو کیا سبق دیں؟
بچوں کو سنسنی خیز، عجیب و غریب اور دلچسپ کہانیاں سننے کا بے حد شوق ہوتا ہے، ہوشیار والدین بچوں کی اس فطری خواہش کو ان کی دینی اوراسلامی تربیت کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس سلسلے میں انبیاء علیہم السلام، مجاہدین اسلام، مسلم فاتحین اور اولیاء الله کے حالات وواقعات بہت مفید ہوتے ہیں، اسی طرح والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے ان کی نظر میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کی اہمیت کم ہو جائے۔ والدین کو ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بچے کا ذہن اس صاف وشفاف سادہ ورق کی طرح ہے جس پر بھیگی ہوئی تحریر کا بھی عکس اتر آتا ہے، خواہ تحریریں اچھی ہوں یا بری، اسی طرح والدین کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بچہ دوسروں کی برائیوں او ربد اخلاقیوں کو دیکھنے نہ پائے او راگر اس طرح کا کوئی موقع آجائے تو اسے سمجھائیں اور اسے یہ باور کرائیں کہ اس کو اختیار کرنے سے اخلاقی معیار گر جاتا ہے، ایسے لوگ معاشرے میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھے جاتے اور نہ ہی ان کا یہ کام قابل تقلید ہوتا ہے۔

سب سے پہلے دینی تعلیم کی ضرورت
آج بہت سے والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کی غرض سے ابتدا ہی سے ایسے اسکولوں میں داخل کر دیتے ہیں کہ جہاں کا ماحول دین سے بیزار ہوتا ہے اور گھر پر بھی لاڈلوں کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کی فکر نہیں کرتے، ان کے لیے کتنی بڑی محرومی کی بات ہے کہ کل وہ بچے بڑے ہوں گے ، ذمہ دار ہوں گے، صاحب اولاد ہوں گے، لیکن اسلام کے تقاضوں سے ناواقف اور اخلاقی اقدار سے محروم ہوں گے اور یہی دشمنان اسلامی کی اولین خواہش ہے۔

دشمنانِ اسلام کی سازش
دشمنانِ اسلام نونہالوں کے اخلاق وعقائد کے بگاڑنے اورانہیں اسلامی شریعت سے برگشتہ کرنے کی نت نئی سازشیں کر رہے ہیں اور ریڈیو،ٹیلی ویژن، ڈش انٹینا، انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب ، ٹک ٹاک اور فحش لٹریچر کے ذریعے ان کے اخلاق وکردار کو برباد کرنے کی انتھک کوشش کر رہے ہیں، ایسی صورت میں مسلمان ماں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تربیت کی فکر کریں، انہیں ضائع ہونے سے بچائیں او راپنے بچوں کی اسلامی اور اخلاقی تربیت کریں۔