نماز میں دھیان کس طرح حاصل ہو؟

idara letterhead universal2c

نماز میں دھیان کس طرح حاصل ہو؟

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

نماز انتہائی سکون اور اطمینان سے پڑھیں، اس میں جلدی بالکل نہ کریں، سبحان ربی العظیم میں اور سبحان ربی الاعلیٰ میں قدوسیت وربوبیت اور عظمت اور پاکی کا استحضار ہو اور اپنی بندگی کا تصور ہو اور جب بھی اللہ اکبر کہیں تو ذہن میں رکھیں کہ” اللہ اکبر من کل شیء“ اور یہ ذہن میں رکھیں کہ وہ ہمارا آقا ہے اور ہم سب اس کے غلام ہیں اور غلامی کا طوق گلے میں ہے۔ایک آسان عنوان یہ ہے کہ جب بھی اللہ اکبر کہیں ، یہ ذہن میں رہے کہ میرا آقا سب سے بڑا ہے، یہ عنوان سب سے مختصر ہے، اس کی کوشش کی جائے کہ یہ ذہن میں رہے، جب آپ یہ کہتے ہوئے رکوع میں جائیں گے توتسبیحات پڑھتے ہوئے آپ کو ایک عجیب لذت حاصل ہوگی اور سکون قلب حاصل ہوگا اور حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے یہ ذہن میں رہے کہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمارے اوپر بہت احسانات ہیں۔ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہوئے تصور کریں کہ آپ کو رفع درجات کے لیے ہماری دعا کی ضرورت نہیں، بلکہ ہم اپنے فائدہ کے لیے یہ کرتے ہیں۔جب آپ ان تمام امور کی رعایت کریں گے تو ان شاء الله آپ کی نماز بہت خوب اور درست ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کو آپ دیکھیں کہ اس میں ان تمام چیزوں کی رعایت نہیں ہے تو آپ اس کو حقیر خیال نہ کریں، اس لیے کہ اس میں اس کے علاوہ کئی خوبیاں بھی موجود ہیں، البتہ از راہِ خیر خواہی اس کی اصلاح کی کوشش کرنا، وہ درست ہے۔ میں سوچا کرتاہوں کہ ہمارے مدرسے میں جمعدار ہے اوروہ کافر ہے اور بحیثیت انسان کے ہمارے اور اس میں کچھ فرق نہیں، صرف اللہ نے ہمیں اسلام کی نعمت دی ہے اور وہ اس سے محروم ہے، لیکن اس میں بھی خوبی موجود ہے کہ ہماری خدمت کرتا ہے اور کتنی ذلت کا کام کرتا ہے اور اس نے یہ قبول کیا ہے ، اگر کوئی ہمیں یہ کام دے تو کیا ہم قبول کریں گے؟ ہرگز نہیں ! تو ہر شخص میں ایسی خوبی موجود ہے جو ہم میں نہیں ،اس لیے کسی کی تحقیر نہیں کرنی چاہیے ،کسی کو حقیر تصور کرنا یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ ہاں! اصلاح کے لیے غصہ کرنا علیحدہ بات ہے، لیکن حقیر تصوُّر نہیں کرنا چاہیے۔کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا تعلق تجربہ سے ہوتا ہے یا وہ اہل تجربہ کے بتانے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ اگر آدمی کوتجربہ نہ ہو اور اہل تجربہ سے اس کا تعلق نہ ہو تو وہ بہت بڑی غلطی کر بیٹھتا ہے، مثلاً کئی آدمی آپ کویہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ ہم اس لیے نماز نہیں پڑھتے کہ اس میں اِدھر اُدھر کے خیالات آتے ہیں ، یکسوئی نہیں ہوتی ، تو پھر ایسی نماز کا کیا فائدہ ؟

اب آپ خود سوچیں کہ ان کا نماز چھوڑنا کتنا بڑا جرم ہے اور گناہ ہے، اگر اہل تجربہ سے تعلق ہوتا تو یہ غلطی نہ کرتے، تجربہ کار سے پوچھ کر تسلی کر لیتے۔ بعض اوقات نماز میں وساوِس کاہجوم ہوتا ہے، لیکن شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ خواہ کتنے ہی خیالات آئیں ان سے آپ کی نماز میں کوئی خلل نہیں پڑتا ، وساوس کے باوجود وہ نماز شرعاً معتبر اور عند الله مقبول ہے۔ جس طرح آپ دعا مانگتے ہیں، خیال کہیں اور ہے، لیکن زبان الفاظ ادا کر رہی ہے اور استحضار جو ہونا چاہیے وہ بالکل نہیں ہے ، تب بھی وہ دعا قبول ہوتی ہے۔