فرمایا: ایک ہے کثرتِ تلاوت وہ اپنی جگہ بہتر ہے، لیکن کچھ وقت قرآن کے اندر تدبر اور تفکر کے لیے مقرر کرو، اس کی برکت سے آپ کے اوپر علوم منکشف ہوں گے، پھر کسی واعظ کی ضرورت نہیں رہے گی، اللہ تعالی ٰکے فضل سے براہ راست ہدایت ملے گی۔
مثلاً :﴿اِذَا السَّمآءُ انْفَطَرَتْ ……﴾
پھر فرمایا:﴿عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَ أَخَّرَتْ…… ﴾
پھر فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الاِنْسَانُ مَا غَرّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْم ﴾
ان سب میں تدبّر اور فکر کرو تو معلوم ہوگا کہ کس قدر اونچے درجے کا کلام ہے، جو واقعی انسانی کلام کبھی نہیں ہوسکتا کہ اتنی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ انسان کے اندرون کو جھنجھوڑا ہے، قرآن کی آیات میں جب تفکر کروگے تو خود بخود اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے گا۔
تلاوت کلام پاک کے بعد اگرہم دعاؤں اور استغفار کا بھی اہتمام کریں گے تو سونے پرسہاگہ ہے، میں سوچتا ہوں کہ ہم جو اتنی بھاگ دوڑ کرتے ہیں، کہیں مال حاصل کرنے کے لیے ذلیل ہوتے ہیں اور کہیں دنیا حاصل کرنے کے لیے مشقت میں پڑتے ہیں، اگر اس کا نصف ہم دعا میں خرچ کریں تو میرا عقیدہ ہے کہ آپ ان مقاصد کو دعاؤں کی برکت سے پالیں گے اور اگر دعا کی قبولیت نظر نہ آئے تو پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ اس کا بہتر عوض آخرت میں ملے گا۔مومن بندہ کی دعا ضرورقبول ہوتی ہے(رواہ البخاری و مسلم فی کتاب الدعوات) جب تک کہ وہ یہ نہ کہے کہ ”میری دعا قبول نہیں ہوتی“ ۔حدیث میں ارشاد ہے کہ جس کی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہو آخرت میں اس کا اجر و ثواب ملے گا تو جن لوگوں کی دعا دنیا میں قبول ہوئی تھی وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش! ہماری کوئی دعا دنیا میں قبول نہ ہوتی اور ہمیں اس کا اجر آخرت میں ملتا۔ایک مرتبہ میں حرم کے دروازے پر کھڑا تھا اور لوگ دعا مانگنے میں مشغول تھے تو ایک بدّو آیا اور زور سے بلند آواز میں کہا ” اللہم اغفرلی، و ان لم تغفر لی فمن یغفر لی؟ “ (ترجمہ: اے اللہ!مجھے معاف کردے ۔اگر تونہیں معاف کرتا تو پھر کون معاف کرے گا؟)اور پھر رونا شروع کردیا اور اس کا ایسا اثرہمارے اوپرہوا کہ ہم سب اس کے ساتھ روئے، اس نے تمام افراد کو رلادیا۔ہمارے شیخ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمہ الله تعالیٰ بہت زیادہ روتے تھے اور ہر نماز میں ان کا یہی عمل ہوتا تھا اور جب دعا مانگتے تو رو رو کر ایسے یقین کی کیفیت کے ساتھ دعا مانگتے کہ دیکھنے والے کو رشک آجاتا اور کبھی کبھار دعا میں زور سے کہتے کہ ”یا اللہ! یہ کام کردے“ ، ”یا اللہ! یہ کام کردے“ اور اس کو دو تین دفعہ دھراتے۔جب ہمارے شیخ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہاں بھی روتے اور بہت زیادہ روتے، مفتی محمد حسن صاحب رحمة الله علیہ اور ہمارے شیخ دونوں اکھٹے حضرت کی مجلس میں جاتے تھے، کبھی اگر مفتی محمد حسن صاحب رحمة الله علیہ اکیلے تشریف لے جاتے تو حضرت تھانوی رحمة الله علیہ پوچھتے کہ ہماری مجلس کی رونق کو تو تم لائے نہیں۔حضرت حکیم الامت ان کو بکّاء (بہت رونے والا) کہا کرتے تھے۔