مسلمان وہ ہے جس کے شر سے سب محفوظ ہوں

idara letterhead universal2c

مسلمان وہ ہے جس کے شر سے سب محفوظ ہوں

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

سرورِ کائنا ت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے دل اور دماغ میں یہ بات بٹھادی تھی کہ مسلمانوں میں تمہارا شمار اس وقت کیا جائے گا جب تمہارے ہاتھ سے اور تمہاری زبان سے کسی بھی دوسرے مسلمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے:” المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ “․ (بخاری 1/6)

یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ عدل کا رواج معاشرے کے اندر عام ہوگیا تھا اور احسان اور حسنِ سلوک کا رواج اس دور کے اندر ان کی پہچان بن گیا تھا۔ ورنہ تو سب جانتے ہیں کہ اسلام کے آنے سے پہلے عرب میں زیادتی اور ظلم، کم زور کو دبانے اورکچلنے اور بے عزتی عام رواج تھا اور وہ ان کی نشانی اور علامت بن گئی تھی۔ لیکن سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور راہ نمائی کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم میں ایک ایسا عجیب انقلاب اور تبدیلی پیدا ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں وہ نشیب و فراز کو ، اونچ نیچ کو، غرور اور تکبر کو اور دوسروں کی بے حرمتی اور ان کی بے توقیری کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، یہ سرورِ کائنات جناب رسول الله ا کی تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے حضرت بلال حبشی رضی الله عنہ کو طرح طرح کے عذاب اور قسم قسم کی مصیبتوں اور اذیتوں سے نجات دلانے کے لیے ایک نہایت قیمتی اور تجارت میں ماہر غلام کے عوض میں خرید لیا اور حضرت بلال رضی الله عنہ اس کے مقابلے میں دنیاوی نقطہ نگاہ سے بالکل بے کار تھے۔ بلال رضی الله عنہ کا حال یہ تھا کہ گلے میں رسی پڑی ہوئی ہے اور بچے اس رسی کو گھسیٹتے ہوئے لے جارہے ہیں۔ کبھی ان کے سینے پر پتھر رکھا ہوا ہے، کبھی گرم ریت پر ان کو لٹاکر تکلیف دی جاتی ہے، اس حال میں وہ اپنے مالک کے ہاں وقت گزار رہے تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا غلام بہترین قسم کی تجارت کر رہا تھا، حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس کو دے دیا، ان کو لے لیا، اس لیے کہ وہ کافر تھا اور یہ مسلمان تھے، وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو کفر کی وجہ سے پسند نہیں تھا، اگر چہ ایک بہترین ہنر اس میں موجود تھا اور حضرت بلال رضی الله عنہ اسلام کی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی نظر میں بہت قیمتی تھے۔ دنیا والوں کی نظر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے گھاٹے کا سودا کیا، لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ میں نے کام یاب تجارت کی اور پھر حضرت بلال رضی الله عنہ کو لے لینے کے بعد غلام بنا کر نہیں رکھا ،بلکہ آزاد کردیا۔ ایک دور یہ ہے کہ حضرت بلال رضی الله عنہ کو گلی کوچوں میں پھرایا جارہا ہے، ان کے گلے میں رسی پڑی ہوئی ہے، ان کو گرم ریت پر لٹاکر تکلیف پہنچائی جاتی ہے، سینہ پر پتھر رکھ کر عذاب دیا جارہا ہے۔ اور ایک دور وہ آیا کہ بلال حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ جیسے زبردست آدمی کے بھی آقا اور سردار بن گئے۔ ہر ایک ان کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا کرتاتھا، ان کی عزت اور تعظیم بجالاتا تھا، کیوں؟ اس لیے کہ صالح اور نیک، متقی اور پرہیز گار تھے۔