ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور بغیر اجازت کے اندر آگئے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہر جائیے اور اندر آنے سے پہلے کہیے:”السلام علیکم “اور پھر اس کے بعد اجازت طلب کیجیے اور کہیے کہ ”میں اندر آجاؤں“ (اندر آنے کی اجازت ہے؟) (جامع الترمذی 2/100) اب یہاں صحابی رضی الله عنہ سے ایک ادب فراموش ہوگیا تھا اور انہوں نے اس کی رعایت نہیں کی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رعایت کی خاطر ان کو عملی طور پر اس کی مشق کروائی۔ایک آدمی اپنے خلوت کدے میں ہے اور وہاں کوئی آدمی ملاقات کے لیے آنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ وہ اجازت لے، ایک عام جگہ میں جہاں کوئی خصوصی مجلس نہیں یا کسی خاص مشورے کے لیے لوگ نہیں بیٹھے ہوئے ، ایسی جگہ کوئی بھی آنا چاہے، بالکل آسکتا ہے، کوئی اجازت کی ضرورت نہیں، لیکن یہ کہ ایک آدمی خلوت میں ہے تو وہاں بغیر اجازت کے نہیں جانا چاہیے، وہاں اجازت لینا ضروری ہے۔حضورپاک علیہ الصلوٰة والسلام کے آداب کے اہتمام کرنے کا اور دوسروں کی رعایت کا اتنا عجیب سلسلہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں سو رہی تھی، حضور پاک علیہ الصلوٰة والسلام بہت آہستہ سے بستر سے اٹھے اور بہت آہستہ سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان کا دروازہ کھولا اور پھر آہستہ ہی سے اس کو بند کیا اور پھر قبرستان تشریف لے گئے۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ یہ اتنا اہتمام اس لیے کیا تھا کہ ان کی نیند خراب نہ ہو جائے، یعنی یہ آداب کے خلاف ہے کہ ایک آدمی سو رہا ہے اور آپ اس کے قریب سے اس زور سے اٹھیں کہ وہ ہل جائے یا اس کے بدن کے ساتھ آپ کا بدن مسّ ہوجائے تو ایسی صورت میں تو سونے والا آدمی بیدار ہوجائے گا اور اس کی نیند خراب ہوجائے گی اور اگر دروازہ زور سے کھولا یا زور سے بند کردیا تو دروازے کی آواز تو نیند والے کو بیدار کردے گی اور یہ حرکت سونے والے کی بے ادبی شمار ہوگی، سرورِ کائنات جناب رسول الله ا نے اپنے آپ کو پابند کیا اور خود اس بات کا اہتمام کیا کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہاکی نیند نہ خراب ہو۔
حضرت مقداد بن اسود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مہمان ٹھہرے ، مسجد نبوی کے ساتھ مقام ِصفہ میں ہمارا قیام تھا، ہم لوگ مسجد میں پہلے سے آکر سو جایا کرتے تھے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لاتے اور سلام فرماتے ، اس طرح کہ اگرہم بیدار ہوں تو سن لیں اور سلام کا جواب دیں اور اگر سو رہے ہوں تو ہماری نیند میں خلل نہ پڑے۔یہ بھی آداب میں سے ہے کہ سونے والے کے قریب باتیں تو کیا زور سے سلام بھی نہیں کرنا چاہیے، تاکہ نیند خراب نہ ہو جائے۔