مرد وعورت حقوق ومساوات

مرد وعورت حقوق ومساوات

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان

ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ہر متمدن قوم وملک ،انسانیت پرور مذہب وملت کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اس ضمن میں ملکوں کے جغرافیائی حالات ، قوموں کے مزاج وعادات کا لحاظ رکھتیہوئے قوانین بنائے جاتے ہیں، پابندیاں عائد ہوتی ہیں، تقسیم کار ہوتاہے، تاکہ افراد کی مساعی میں نظم وضبط پیدا ہو اور مشترکہ اجتماعی کوششیں ثمر آور ہو کر اس تشنہ خواب کوعملی جامہ پہنا سکیں۔

اسلام نے اس سلسلہ میں نہ صرف قوانین وضع کیے، بلکہ خیر القرون میں اس کی عملی تصویر دکھا کر، رہتی دنیا کے لیے ایک مثال پیش کر دی۔ مرد وزن معاشرے کے دو اہم ستون ہیں۔ ان کی باہمی کوششوں سے تمدن وجود پاتا اور تہذیب برگ وبار لاتی ہے۔ اسلام نے ان دونوں صنفوں کی جسمانی ساخت، نفسیاتی رویے اور طبعی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا ہے، بنا بریں انہیں مخصوص ذمہ داریوں کا مکلف بنایا، ان میں مسابقت کی بجائے رفاقت کا اصول وضع کیا اور ہر ایک کا الگ الگ دائرہ کار تجویز کیا۔ انہی فرائض وذمہ داریوں اور مثالی معاشرے کی تشکیل میں مرد وزن کے کردار پر ذیل کی سطور میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کائنات کا سب سے پہلا رشتہ شوہر اوربیوی کا ہے۔ مرد اور عورت اس رشتے میں نکاح کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔ نکاح ایک معاہدہ ہے، جس میں مرد یہعہد کرتا ہے کہ وہ تادم حیات عورت کا کفیل او رنگراں رہے گا، اس معاہدے کو قرآن پاک نے ” پختہ عہد“ سے تعبیرکیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

﴿وَکَیْفَ تَأْخُذُونَہُ وَقَدْ أَفْضَیٰ بَعْضُکُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنکُم مِّیثَاقًا غَلِیظًا ﴾․(سورہٴ نساء، آیت:21)

اور تم دیا ہوا مال کیوں کر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ رہ چکے ہو اور وہ تم سے عہد ِواثق بھی لے چکیہیں؟“

اس معاہدے کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد مرد کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ مہر ادا کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَةً ﴾․”پھر ان میں سے جن عورتوں سے تم نے نکاح کے ذریعے فائدہ اٹھایا، ان کے مہر انہیں دو جو فرض ہے تم پر“۔

قرآن نے یہ بھی بتا دیا کہ یہ مہر اجرت نہیں، بلکہ پُرخلوص ہدیہ ہے۔ آیت ہے:﴿وَآتُوا النِّسَاء َ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً﴾․”عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو“۔

ازدواجی زندگی کا آغاز ہوتے ہی بیوی کی اصلاح کے ساتھ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرے۔ بیوی کی ضروریات گھر، کپڑے، دوا او رکھانے پینے کے دیگر اخراجات کا بار اٹھانا شوہر کے فرائض میں داخل ہے۔ خرچہ وغیرہ کی کوئی خا ص مقدار متعین نہیں،بلکہ حیثیت اوراستطاعتِ اس ضمن میں حرف آخر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لِیُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِہِ وَمَن قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللَّہُ لَا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاہَا ﴾․(سورہ طلاق، آیت:7) ” چاہیے کہ وسعت ( مال کی ) رکھنے والے اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کریں اور جس پر اس کا رزق تنگ ہو تو اسے چاہیے کہ الله کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرے۔ الله تعالیٰ اپنیدیے ہوئے سے زیادہ کسی کو مکلف نہیں کرتا“۔ٴ

﴿وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾․ (سورہٴ بقرہٴ،آیت:233)”اور جس آدمی کا بچہ ہے، اس کے ذمہ ہے ان (ماؤں) کا کھانا او رکپڑا دستور کے موافق“۔

علاوہ ازیں شوہر کی ذمہ داری ہے وہ بیوی کے ساتھ انصاف کرے، حقوق پوری طرح ادا کرے او راچھا سلوک کرے۔ والدین اور دیگر محرم اقرباء سے ملنے پر روک ٹوک نہ کرے۔ گھر وخاندان کی معاشی کفالت اور اخلاقی ذمے داریوں کے ساتھ مرد کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے بیوی کا دل جیتنے کی کوشش کرے، اس کی نازبرداری کرے اور حُسن سلوک سے عائلی زندگی کو سنوارنے او رباہمی محبت بڑھانے کی تگ ودو کرے، قرآن پاک میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَیٰ أَن تَکْرَہُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا﴾․ (سورہٴ نساء، آیت:19) ” اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور الله نے اس میں بہت خوبی رکھی ہو“۔

نکاح کے نتیجے میں الله تعالیٰ اولاد عطا کرتا ہے۔ اولاد کی تعلیم وتربیت، پرورش ونگہداشت، ماں، باپ بالخصوص باپ کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں اولاد کے بنیادی حقوق کا تذکرہ موجو دہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بھی بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ باپ کے فرائض اور اولاد کے حقوق کی تعلیم دی ہے۔ فقیہ ابو اللیث اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”بیٹے کے حقوق سے باپ کے ذمہ تین چیزیں ہیں:پیدائش پر اس کا اچھا نام رکھے۔ سمجھ دار ہو جائے، تو اسے قرآن پڑھائے۔۔بالغ ہو جائے تو اس کا نکاح کر دے۔ (تنبیہ الغافلین،ص:143)

اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کے فرض سے سبک دوش ہونے کے لیے ضرور ی ہے کہ باپ کو اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض کا بخوبی علم ہوتا کہ اولاد کی صحیح خطوط پر ذہنی تربیت کرسکے او رانہیں معاشرے کا کار آمد فرد بنا سکے۔ مرد پر لازم ہے کہ ایک بیٹے کی حیثیت سے اپنے والدین کی خدمت، حسنِ سلوک اور حقوق کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ قرآنِ مجید میں الله تعالیٰ نے ماں باپ کی خدمت او ران کے ساتھ حسن سلوک کا حکم توحید اور عبادت کے ساتھ ساتھ دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا﴾․ (سورہٴ اسراء،آیت:23) ” اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی عبادت مت کرو او رتم ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔“

جب کہ احادیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے والدین سے حسن ِ سلوک کو جزوِ ایمان کا درجہ دیا ہے، جس سے والدین کے حقوق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ عورت کی فطری اور صنفی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اسے ہر حیثیت میں کسبِ معاش سے بری الذمہ رکھا ہے۔بیع ہونے کی صورت میں باپ پر کفالت کی ذمہ داری ڈالی ہے، یہ کفالت شادی یا موت سے ساقط ہوتی ہے۔ بیوی جب تک شوہر کے عقد میں ہے تووہ اس کا معاشی کفیل ہے،۔ بہن کی حیثیت سے بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے آرام وآسائش کا خیال رکھے۔ کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المال سے مالی تعاون او رداد رسی کرے۔
مردوں سے اختلاط، محنت ومشقت اور فتنہ وفساد سیمحفوظ رکھنے کے لیے اسلام نے عورت کو روزی روز گار کے جھنجھٹ سے آزاد کر دیا ہے اور اس لیے بھی کہ فطری فرائض ( حمل، ولادت، رضاعت) کے ساتھ اگر یہ بوجھ بھی صنفِ نازک کے ناتواں کاندھوں پر ڈالا جاتا، تواس کا پیمانہٴ صبر چھلک جاتا اور قوتِ برداشت جواب دے جاتی۔ اسلام نے عورت کو ”چراغ خانہ“ بننے کی تاکید کی ہے۔ اولاد کی ذہنی وفکری تربیت اور نسل نو کو مضبوط بنیادوں پراستوار کرنے کی گراں بار ذمہ داری اسے سونپی ہے۔ دنیا کی قدیم ترین ریاست ”خاندان“ کا اسے نگراں بنایا ہے۔ یہی خاندانی نظام ِ مغرب ، جس کی بکھری کرچیاں سمیٹنے کی تگ ودو میں ہے، مشرق میں آزادی نسواں کے نام پر تیشہ زنی کی زد میں ہے ۔اسلام، جس نے عورتوں کے حقوق کا تصور دیا ستم ظریفی دیکھیے آج اسے حقوقِ نسواں کا غاصب باور کرایا جارہا ہے۔ پوری قوت کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ اسلام مردوزن کے حقوق کے سلسلے میں مساوات کا قائل نہیں، جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں:۔

انسانیت میں مساوات: چھٹی صدی کے رومیوں کا نظریہ تھا کہ عورت شر انگیز روح ہے۔ لیکن اسلام نے مرد وزن میں شرفِ انسانیت میں مساوات کا تصور دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَاء ً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاء َلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا﴾․(سورہٴ نساء، آیت:1) ” اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اسی سے اُس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اور اس الله سے ڈرتے رہو، جس کے واسطہ سے آپس میں سوال کرتے ہو اور اہلِ قرابت سے بھی ڈرو، بے شک الله تم پر نگہبان ہے“۔

اور فرمایا:
﴿وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاء ِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا﴾․(سورة فرقان،آیت:54)”اور وہی الله ہے جس نے پانی سے آدمی بنایا، پھر اس کے رشتہ اور سسرال مقرر کیے او رتمہارا رب قدرت والا ہے“۔

تخلیق میں مساوات: زمانہٴ قدیم میں اسپین کے لوگ کہا کرتے تھے کہ بری عورت سے بچو او راچھی عورت کی طرف مائل نہ ہو۔ ایسے ہی مسخ شدہ تورات کی طرف منسوب یہ باتیں بھی زبان زد عام تھیں: ”عورت موت سے بھی زیادہ تلخ ہے، الله تعالیٰ کی نظروں میں برگزیدہ وہی ہے جو اس سے بچے گا، ہزاروں میں ایک مرد تو میں نے پایا، لیکن عورت نہیں پائی۔“ اسلام نے آکر بتایا کہ مردو عورت ذات کے اعتبار سے برابر ہیں، انہیں کے ذریعے ایمان واخلاق بڑھتے ہیں اور کفر وانحراف خم ہوتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا، فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․ (سورہٴ شمس، آیت:7 تا10) ” قسم ہے جان کی او راس کی جس نے اس کو ٹھیک بنایا، پھراس کی بد کاری اور پرہیز گاری دل میں ڈالی، بے شک مراد کو پہنچا جس نے اس کو سنوارا اور نامراد ہوا جس نے اس کو گناہوں میں چھپایا“۔

احترام انسانیت میں مساوات: ”حمورابی“ کے قانون میں تھا کہ اگر کسی نے دوسرے آدمی کی لڑکی قتل کی تو اس پر ضرور ی ہے کہ اپنی بیٹی اس کے حوالے کرے۔ تاکہ وہ اس کو قصاص میں قتل کر دے یا مالک بن جائے۔ اسلام نے اس رویے کی نفی کی اور احترام انسانیت میں مردو عورت کو یکساں قرار دیا۔ عار وملامت کے خوف سے لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے سے منع کیا، ایسے ہی فقر وفاقہ کے ڈر سے بچوں کے مارنے کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذَا الْمَوْء ُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ﴾․(سورة تکویر، آیت:9-8)” او رجب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم کی پاداش میں قتل کی گئی؟“۔

بیویوں کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ﴾․(سورہٴ بقرہ، آیت:228)”اور عورتوں کا بھی ایسا ہی حق ہے جیسا ان پر شرع کے موافق ہے اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے“۔

اور فرمایا:
﴿فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلًا﴾․(سورہٴ نساء، آیت:34)” پھر اگر وہ (عورتیں) تمہارے حکم پر آجائیں تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ تلاش نہ کرو“۔

اسی طرح عورت کی عزتِ نفس مجروح کرنے او راس پر جھوٹی تہمت لگانے کی سزا مقرر کی۔

﴿وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُہَدَاء َ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَةً أَبَدًا وَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ﴾․(سورہٴ نور، آیت:4)” اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، پھر چار گواہ پیش نہیں کرتے، انہیں اسی کوڑے لگاؤ، کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہی فاسق فاجر لوگ ہیں“۔

ایمان، اعمال اور جزا میں مساوات: ایک وقت تھا جب حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کے علاوہ دوسری عورتوں کو جہنم کا ایندھن سمجھاجاتا تھا۔ اسلام آیااور اس نے بتایا کہ ایمان، اعمال اور جزا میں مرد عورت برابر ہیں، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِینَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِینَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِینَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِینَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِینَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِینَ فُرُوجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِینَ اللَّہَ کَثِیرًا وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا﴾․ (سورہٴ احزاب،آیت:35) ”بے شک مسلمان مرد اورمسلمان عورتیں ، مومن مرد او رمومن عورتیں، بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے دار مرد اور روزے دار عورتیں، الله تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور بہت زیادہ یاد کرنے والی عورتیں… الله نے ان کے لیے معافی اور بڑا ثواب تیار کرر کھا ہے“۔

نیز فرمایا:
﴿مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزَیٰ إِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُونَ فِیہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾․(سورة غافر، آیت:40)”اور جس نے نیکی کی مرد ہو یا عورت اور وہ مؤمن ہو تو وہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بے حساب روزی پائیں گے“۔

اور فرمایا:
﴿فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَیٰ بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ﴾․(سورہٴ آل عمران، آیت:195) ” پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی محنت کرنے والے کی محنت ضائع نہیں کرتا ،مرد ہو یا عورت ، تم آپس میں ایک ہو“۔

تربیت او رتہذیب وتمدن میں مساوات: ایک وقت ایسابھی تھا کہ عربوں کے ہاں عورت گری بڑی چیز سمجھی جاتی،اس کی کوئی قدرومنزلت نہ تھی۔ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر ایسا ہی زور دیا جیسا لڑکوں کی تربیت کی تاکید کی۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾․(سورہٴ تحریم، آیت:6)

”اے ایمان والو! اپنی جان کو او راپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی او رپتھر ہیں“۔

حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” کوئی باپ اپنے لڑکے کو اچھے ادب سے بہتر کوئی چیر نہیں دیتا“۔ (رواہ الترمذی)

اور فرمایا:” جس مسلمان کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں، اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، تو وہ اس کو جنت میں داخل کرائیں گی“۔ (رواہ ابن ماجہ)

نیز فرمایا:”جس کی تین بیٹیاں یا بہنیں یا دو بہنیں یا دو بیٹیاں ہوں اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے او ران کے بارے میں الله سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے“۔(رواہ الترمذی)

ابو داؤد کی روایت میں ہے:”… ان کو ادب سکھائے، ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، ان کی شادی کرائے تو اس کے لیے جنت ہے۔“

حصولِ علوم میں مساوات: ایک زمانہ میں جرمن باشندے کہا کرتے تھے، کپڑوں کا ڈھیر ہی عورت کا مدرسہ ہے۔ لیکن اسلام نے عورت کی تعلیم کی ویسی ہی ترغیب دی جیسی مرد کی تعلیم کی دی تھی، اس لیے کہ علم کے بغیر عورت ان فرائض واحکامات سے واقف نہیں ہوسکتی تھی جو شریعتِ اسلامیہ نے اس پر لازم کیے تھے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”جس آدمی کے پاس باندی ہو اور وہ اس کو پڑھائے، اچھی تعلیم دلائے او راچھی طرح ادب سکھائے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے شادی کر لے تو اس کے لیے دو اجر ہیں“۔

یہ او ران جیسے دیگر امو رمیں اسلام مردوزن کو مساوی قرار دینے کی باوجود، ان کی صنفی وفطری صلاحیتوں کے لحاظ سے ان کا الگ الگ دائرہ کار تجویز کرتا ہے، اسلام عورت ومرد کی مساوات کو بلاشبہ تسلیم کرتا ہے، لیکن وہ مساوات اس مساوات سے یکسر مختلف ہے جس کی پُر جوش تشہیر آج کے مغرب کے روشن خیال مفکر یا تحریک نسواں کے علم بردار کر رہے ہیں، جس کا مقصد مشرقی عورت کو روایتی شرم وحیا سے محروم کرکے آوارگی او رجنسی بے راہ روی کی راہ پر ڈالنا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے، یہاں مردوزن کے حقوق کا تعین اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اسلام نے مردوزن کے حقوق وفرائض کے بارے میں بے حد متوازن نظام عطا کیا ہے، مغرب کے سیکولر، لادین، مذہب بیزار، فحش انگیز، غیر متوازن اور ہیجان خیز نظام کا اتباع بحیثیت قوم، ہماری تباہی کا پیشہ خیمہ ثابت ہو گا۔ مغرب جس خاندانی اقدار کی بحالی کی ضرورت محسوس کر رہا ہے، ہم ان اقدار کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں، یہ ہم سب کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے!