بات یہ چل رہی تھی کہ اخلاق فاضلہ کو اختیار کرنے اور اخلاق رذیلہ کو ترک کرنے کا حکم ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ اگر کپڑا میلا ہو تو اس کو رنگ نہیں چڑھایا جاتا بلکہ پہلے اسے صاف کرتے ہیں، پھر رنگ چڑھاتے ہیں ،اسی طرح گاڑی کو اگر رنگ دیتے ہیں تو پہلے زنگ وغیرہ ختم کیا جاتا ہے، پھر رنگ دیاجاتا ہے۔ تو یہی کیفیت ہمارے قلب کی ہے کہ اس میں اخلاق رذیلہ موجود ہیں اگر اس میں اخلاق حسنہ لانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اخلاق رذیلہ ختم کیے جائیں ۔ پھر اخلاق حسنہ کو اپنایا جائے ۔بعض اخلاقی کم زوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی وجہ سے پورا معاشرہ سخت اذیت میں مبتلا ہوتا ہے، مثلاً : چغلی ایک بری عادت ہے اور اس بری عادت میں بہت لوگ مبتلا ہیں، غیبت کرنا ، بہتان لگانا ، کسی پر خواہ مخواہ الزام لگانا ، خود نمائی اور ریا کاری کی عادت اختیار کرنا یا ایسے ہی خود پسندی اور اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر خیال کرنا یہ تمام اخلاقی بیماریاں ہیں ۔ ایک آدمی چغل خوری کرتا ہے، مثلاً میں نے کوئی بات کی، جس کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا مناسب نہیں ہے ،وہ چغلی کرنے والا جا کر دوسرے کو بتائے گا ،نتیجہ یہ ہوگا کہ اس آدمی کے دل میں کدورت پیدا ہوگئی اور میرے اور اس کے معاملات صاف نہیں رہیں گے۔ اس کے بارے میں نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چغلی کرنا استرا ہے، یہ بالوں کو مونڈنے والا اُسترا نہیں ہے، بلکہ دین کو صاف کرنے والا اُسترا ہے۔ یعنی آپ نے چغلی کی، اس سے کدورت پیدا ہوئی اور آدمی عالم الغیب تو ہوتا نہیں اس لیے جس کی چغلی کی وہ صفائی بھی پیش نہیں کرسکتا، کیوں کہ اسے خبر نہیں، نتیجتاًمقابل کے دل میں کدورت پیدا ہوئی اور تعلقات میں کشیدگی آگئی۔اخلاق رذیلہ کی بحث میں جہاں تک غیبت کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ جس شخص کی غیبت کی جارہی ہو اگر اس کو علم نہ ہو تو پھر صرف اللہ سے توبہ کرنا کافی ہوتا ہے اور اگر اس شخص کو علم ہوگیا تو پھر اس سے بھی معافی مانگنا ضروری ہوتا ہے۔باقی غیبت کی بیماری بہت عام ہے، اگر کوئی ٹوکے کہ تو غیبت کر رہا ہے جو کہ ناجائز ہے تو جواب دیتے ہیں کہ میں تو اس کے سامنے بھی کہہ سکتا ہوں، تو بھائی! اگر عیب بیان کر رہے ہو اور واقعتاً وہ عیب اس میں موجود ہے تو یہی تو غیبت ہے اگر آپ اس کے سامنے کہیں گے اور اسے عار دلائیں گے تو وہ الگ گناہ ہے، تو یہ کہنا کہ میں سامنے بھی کہہ سکتا ہوں اس سے غیبت کی نفی لازم نہیں آتی، اگر وہ عیب موجود ہو تو غیبت ہے اور اگر وہ عیب اس کے اندر موجود نہیں تو یہ آپ اس پر بہتان لگارہے ہیں اور غیبت و بہتان دونوں ناجائز ہیں۔اسی طرح بعض لوگ اشتعال میں آکر غیبت کرتے ہیں، بعض افسوس اور تأسف کا انداز اختیار کر کے غیبت کرتے ہیں جیسے اسے بڑا رحم آرہا ہے اور صدمہ ہورہاہے اور بعض خیر خواہانہ رویہ اختیار کر کے غیبت کرتے ہیں، یہ سب نفس و شیطان کے بنائے ہوئے طریقے ہیں، تاکہ انسان کو گم راہ کرسکیں۔ قرآن میں فرمایا :﴿وَ لاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتاً فََکَرِہْتُمُوْہ﴾ ․(سورة الحجرات)
ترجمہ :”اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس کو تو تم ناگوار سمجھتے ہو“۔