مسلسل پیشاپ کے قطروں کی وجہ سے طہارت کا حکم

مسلسل پیشاپ کے قطروں کی وجہ سے طہارت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کو قطروں کی بیماری ہے جس میں قطروں کی نوعیت کوئی مخصوص نہیں ہے یعنی کبھی بھی آسکتے ہیں۔ نماز کے اول وقت سے آخر تک پاکی کسی بھی طرح یقینی نہیں پائی جاتی کہ بندہ کے انتظار کا کوئی فائدہ ہو،کبھی آنے لگیں گے کبھی نہیں ،یہ دونوں کیفیتیں ایک ہی نماز کے وقت میں جمع ہوجاتی ہیں۔ اس کی صورت اس طرح ہے کہ جس وقت قطروں سے پاک ہونا محسوس ہو پھر عین طہارت کے وقت یا عین نماز میں آجاتے ہیں۔ مگر کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا کہ نماز ادا ہو جاتی ہے۔ آیا ایسا شخص معذور ہے یا نہیں؟

جواب

اگر ایک مرتبہ کسی شخص پہ کسی نماز کا پورا وقت اس حالت میں گزر جائے کہ برابر قطرے آتے رہیں، اور اتنی مہلت بھی نہ مل سکے کہ وضوء کر کے وقتیہ نماز پوری کرسکے، تو یہ شخص معذور ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ ہر وقت کے لئے اس کے ذمہ وضوضروری ہے، اور اس وضو سے فرض، نفل، اداء، قضا ء جو دل چاہے پڑھتا رہے، وقت ختم ہونا اس کے حق میں ناقض وضوء ہے، ہر وقت کے لئے علیحدہ وضو کرنا ضروری ہے۔
اور یہ شخص معذور رہے گا جب تک ایک نماز کا پورا وقت عذر سے خالی نہ گزر جائے، یعنی معذور رہنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ عذر مسلسل رہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ ہر نماز کے کامل وقت میں ایک مرتبہ عذر کا تحقق ہوجائے اور جب ایسی حالت آجائے کہ پورے وقت میں قطرے بالکل نہیں آئے، تو یہ شخص معذور نہیں رہے گا۔
اور اگر کسی نماز کا پورا وقت ایسا نہیں گزرا کہ اس کو عذر سے خالی رہ کر نماز کا ادا کرنا ممکن ہو، بلکہ اتنی گنجائش مل جاتی ہے کہ ہر وقت میں  بلا عذر ادا کرسکتا ہے، تو یہ معذور نہیں۔
لما في الدر مع الرد:
’’وصاحب عذر من به سلس بول.... (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم، (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة، (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل‘‘.
’’(قوله:ولو حكما) أي:ولو كان الاستيعاب حكما بأن انقطع العذر في زمن يسير لا يمكنه فيه الوضوء والصلاة، فلا يشترط الاستيعاب الحقيقي في حق الابتداء‘‘.(کتاب الطھارۃ،مطلب في أحکام المعذور:555/1،رشیدیۃ).
وفي مجمع الأنهر:
’’المستحاضة ومن به سلس بول....(يتوضؤن لوقت كل صلاة، ويصلون به في الوقت ما شاءوا من فرض ونفل) ما دام الوقت باقيا... (ويبطل) الوضوء (بخروجه) أي بخروج الوقت (فقط)،...المعذور من لا يمضي عليه وقت الصلاة إلا والذي ابتلي به (يوجد فيه) هذا تعريف المعذور في حالة البقاء، وأما في حالة الابتداء فإن يستوعب استمرار العذر وقت الصلاة كاملا  كالانقطاع، فإنه لايثبت ما لم يستوعب الوقت كله... قال صاحب الدرر:ولو حكما؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم‘‘.(كتاب الطهارة، باب الحيض، فصل المستحاضة ومن به سلس بول: 56/1، دار إحياء التراث).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/257