کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ذیل کے مذکورہ معاملات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ حضرات کی رہنمائی مطلوب ہے:
پس منظر :
فریق اول (بیٹا) نے پانچ سال قبل بیرون ملک ایک رجسٹرڈ کمپنی کے تحت ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، اس کا مکمل بنیادی سرمایہ، وقت اور محنت انہی فریق اول کی جانب سے صرف ہوا اور آج وہ ادارہ باقاعدہ مستحکم اور کامیابی کی منازل طے کررہا ہے۔
نئے شریک کا ادارہ :
فریق دوم (والد) صرف مالی سرمایہ کاری کی غرض سے ادارے میں تین، یا پانچ سال کے لیے شریک ہونا چاہتےہیں، جبکہ ادارے کے عملی انتظام، یا تدریس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔
بلڈنگ کی حالت :
ادارہ فی الحال کرائے کی عمارت میں کام کررہا ہے، اب فریق اول چاہتا ہے کہ نئے سرمائے کے ساتھ اپنا تقریباً 70 فیصد سرمایہ شامل کرکے اسی عمارت کو خرید لیا جائے، مگر خریداری صرف فریق اول کے نام پر ہو۔
حصص و شرائط:
فریق دوم کو کمپنی کے بیس تا پچیس فیصد حصص دیے جائیں گے اور ان کی صریح رضامندی کے ساتھ انہیں نفع و نقصان میں شرکت کا حق دیا جائے گا، عمارت کی ملکیت اور اس کے تصرفات میں فریق دوم کا کوئی حصہ، یا اختیار نہیں ہوگا۔
شرعی سوالات :
۱…اس نوع کی شراکت کو شرعی اصطلاح میں کیا نام دیا جائے گا؟
۲…کیا صرف حصص کے ذریعے شرکت کرنا اور عمارت کی ملکیت سے الگ رہنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟
۳…نفع و نقصان کی تقسیم کا شرعی معیار کیا ہوگا؟ (سرمایہ بمقابلہ محنت و وقت)
۴… اگر فریق اول اپنی رضامندی سے فریق دوم کو رشتہ داری، یا خیر خواہی کے طور پر کچھ معمولی زائد حصہ دے، تو کیا یہ سود میں شمار ہوگا؟
برائے کرم ان نکات پر جامع شرعی جواب سے مستفید فرمائیں۔
واضح رہے کہ جب آپ فریق ثانی کو ملکیت میں شریک کرنا نہیں چاہتے، منافع میں شریک کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے دو طریقے ہیں :
ایک طریقہ یہ ہے: مذکورہ معاملہ چونکہ شرکت املاک پر مبنی ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ دونوں فریق اگر مل کر کوئی جگہ خریدیں، تو دونوں فریق اپنے حصے کے بقدر اس جگہ کے مالک ہوں گے اور دونوں میں سے ہر ایک اپنے شریک کی اجازت کے بغیر اس کے حصے میں تصرف نہیں کر سکتا، البتہ دوسرا فریق اگر اپنا حصہ پہلے فریق کو کرائے پر دے دے، تو اس دوسرے فریق کے لیے اپنے حصے کا کرایہ وصول کرنا جائز ہوگا۔
دوسرا طریقہ یہ ہے: فریقین کو چاہیے کہ آپس میں شرکت کا معاملہ نہ کریں، بلکہ دوسرا فریق ان پیسوں سے (جو وہ شراکت کے لیے دینا چاہتا ہے) اس تعلیمی ادارے کے دیگر اثاثہ جات (مثلاً: ڈیسک وغیرہ) خرید لے اور پھر وہ اثاثے ادارے کو کرائے پر دے دے اور ماہانہ کرایہ وصول کرتا رہے، اب اگر پہلا فریق ان پیسوں سے کوئی جگہ خریدے گا، تو صرف وہ (پہلا فریق) ہی اس جگہ کا مالک ہوگا، دوسرا فریق اس جگہ میں شریک نہ ہوگا۔لما في الرد مع الدر:’’(شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا)... (بإرث أو بيع أو غيرهما)‘‘.’’قوله: (إلا في صورة الخلط) ...والاختلاط فإنه لا يجوز البيع من غير شريكه بلا إذنه... إذا كانت بالخلط أو الاختلاط كان كل حبة مملوكة بجميع أجزائها ليس للآخر فيها شركة، فإذا باع نصيبه من غير الشريك لا يقدر على تسليمه إلا مخلوطا بنصيب الشريك فيتوقف على إذنه‘‘. (كتاب الشركة: 6/ 460-461:رشيدية)وفي مختصرالقدوري:’’فشركة الأملاك: العين يرثها رجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن ينصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه وكل واحد منهما في نصيب صاحبه كالأجنبي‘‘.(كتاب الشركة: 245، معهد عثمان بن عفان)و في الرد مع الدر:’’(إذا آجر) كل نصيبه أو بعضه (من شريكه) فيجوز، وجوازه بكل حال، وعليه الفتوى‘‘.(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة:9/ 79-80: رشيدية)وفي البدائع:’’الشركة بالأموال فهو أن يشترك اثنان في رأس مال فيقولان اشتركنا فيه على أن نشتري ونبيع معا أو شتى أو أطلقا على أن ما رزق الله عز وجل من ربح فهو بيننا على شرط كذا أو يقول أحدهما ذلك ويقول الآخر نعم ولو ذكرا الشراء دون البيع فإن ذكرا ما يدل على شركة العقود بأن قالا ما اشترينا فهو بيننا أو ما اشترى أحدنا من تجارة فهو بيننا يكون شركة‘‘. (كتاب الشركة: 73/5، دارإحياء التراث بيرون)وفي التنوير مع الدر:’’(وصح بثمن حال)وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع‘‘.(كتاب البيوع،مطلب ما يبطل الإيجاب:47/7،رشيدية)وفي حاشية ابن عابدين:’’(لئلا يفضي إلى النزاع)تعليل لاشتراط كون الأجل معلوما لأن علمه لا يفضي إلى النزاع.....ومنها اشتراط أن يعطيه الثمن على التفاريق أو كل أسبوع البعض فإن لم يشرط في البيع بل ذكر بعده لم يفسد وكان له أخذ الكل جملة‘‘.(کتاب البیوع، مطلب في الفرق بین الأثمان ،49/7، رشیدیة).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:191/246